ایسا کوئی محبُوب نہ ہوگا نہ کہیں ہے

ایسا کوئی محبُوب نہ ہوگا نہ کہیں ہے

بیٹھا ہے چٹائی پہ مگر عرش نشیں ہے


مِلتا نہیں کیا کیا دو جہاں کو ترے در سے

اک لفظ نہیں ہے کہ ترے لب پہ نہیں ہے


ہیں تیرے ہوا خواہوں میں مُرسل بھی نبی بھی

کونین ترے زیرِ اثر زیرِ نگیں ہے


تو چاہے تو ہر شب ہو مثالِ شبِ اسرےٰ

تیرے لیے دو چار قدم عرشِ بریں ہے


ہر اک کو میسّر کہاں اُس در کی غُلامی

اُس در کا تو دربان بھی جبریلِ امیں ہَے


رُکتے ہیں یہیں آ کے قدم اہلِ نظر کے

اِس کُوچے سے آگے نہ زماں ہے نہ زمیں ہے


اے شاہِ زمن اب تو زیارت کا شرَف دے

بے چین ہَیں آنکھیں مری بیتاب جبیں ہے


دِل گِریہ کُناں اور نظر سُوئے مدینہ

اعظؔم ترا اندازِ طلب کتنا حسِیں ہے

شاعر کا نام :- محمد اعظم چشتی

کتاب کا نام :- کلیاتِ اعظم چشتی

دیگر کلام

دو جہاں سرکار کی تملیک میں ہی ٹھیک ہیں

بارھویں آئی ہے گویا کہ بہار آئی ہے

ہم کو آتا ہے صدا کرنا صدا کرتے ہیں

بھول جائے، شہِ لولاک! دھڑکنا در پر

یوں منّور ہے یہ دل ، غارِ حرا ہو جیسے

قطع: اپنے مولا کی بس اک چشمِ عنایت مانگے

رُوح و بد ن میں ‘ قول و عمل میں ‘ کتنے جمیل ہیں آپ

جو نبی کے قریب ہوتے ہیں

آرزوئیں بھی مشکبو کیجے

پلکاں دے اوہلے چمکے تارے حضوریاں دے