دو جہاں سرکار کی تملیک میں ہی ٹھیک ہیں

دو جہاں سرکار کی تملیک میں ہی ٹھیک ہیں

اس کے منکر عالمِ تاریک میں ہی ٹھیک ہیں


ہم خطاکاروں کو حرصِ منزلِ واعِظ نہیں

عاصی روضہ پاک کے نزدیک میں ہی ٹھیک ہیں


عشق والوں کا سکوں تو آج بھی طیبہ میں ہے

عقل والے پہرہِ تشکیک میں ہی ٹھیک ہیں


جو بھی حاجت مند ہیں شاہانِ عالم کے، رہیں

ہم فقیر آقا کے در کی بھیک میں ہی ٹھیک ہیں


جِھیل سکتا ہی نہیں ناراضئِ احمدؐ کوئی

عالمیں آقائے کُل کی ٹھیک میں ہی ٹھیک ہیں


مدحِ حُسنِ غیر کا انجام کہتا ہے مجھے

لفظ تیرے نعت کی تحریک میں ہی ٹھیک۔ہیں


اس سے بڑھ کر کیا طلب ہو اے تبسم حشر میں

نعت خواں سب نامہِ تبریک میں ہی ٹھیک ہیں

دیگر کلام

قسم یاد فرمائی قرآں نے جن کی وہی تو مری زیست کے مدعا ہیں

سکون قلب و نظر عشق

مینوں بخشیاں عزتاں مصطفیٰ نے

مدینے شہر دے میں ہر گلی بازار توں صدقے

مجھے مصطفٰے کے ہوتے کس بات کی کمی ہے

نظر آتے نہیں حالات اور آثار ،یا اللہ

مرے کام آگئی زندگی مجھے

ہیں سرفراز حُبِ رسولِ خدا سے ہم

پھر مجھے آقا مدینے میں بُلایا شکریہ

میرے دل دے اُجڑے گلشن وچ تیری یاد دے نال آبادی اے