اندھیری رات ہے غم کی گھٹا عصیاں کی کالی ہے

اندھیری رات ہے غم کی گھٹا عصیاں کی کالی ہے

دلِ بے کس کا اِس آفت میں آقا تُو ہی والی ہے


نہ ہو مایوس آتی ہے صَدا گورِ غریبَاں سے

نبی اُمّت کا حامی ہے خدا بندوں کا والی ہے


اُترتے چاند ڈھلتی چاندنی جو ہو سکے کر لے

اندھیرا پاکھ آتا ہے یہ دو دن کی اُجالی ہے


ارے یہ بھیڑیوں کا بن ہے اور شام آگئی سر پر

کہاں سویا مسافر ہائے کتنا لا اُبالی ہے


اندھیرا گھر، اکیلی جان، دَم گُھٹتا، دِل اُکتاتا

خدا کو یاد کر پیارے وہ ساعت آنے والی ہے


زمیں تپتی، کٹیلی راہ، بَھاری بوجھ، گھائل پاؤں

مصیبت جھیلنے والے تِرا اللہ والی ہے


نہ چَونکا دن ہے ڈھلنے پر تری منزل ہوئی کھوٹی

ارے او جانے والے نیند یہ کب کی نکالی ہے


رضاؔ منزل تو جیسی ہے وہ اِک میں کیا سبھی کو ہے

تم اس کو روتے ہو یہ تو کہو یاں ہاتھ خالی ہے

شاعر کا نام :- احمد رضا خان بریلوی

کتاب کا نام :- حدائقِ بخشش

دیگر کلام

نبیؐ کے شہرِ پُرانوار کا ارادہ ہے

ہمیشہ قریۂ اُمّی لقب میں رہتے ہیں

وہ بصیرت اے خدا! منزل نما ہم کو ملے

ایسی قدرت نے تیری صورت سنواری یارسول

وُجُودِ شاعرِ مِدحت پہ خوف ہے طاری

مِلا جو اذنِ حضوری پیام بر کے بغیر

ذرّے ذرّے کی آغوش میں نور ہے

سچا ہے اور سچ کے سوا بولتا نہیں

میری خطائیں گرچہ ہیں

غروب آفتاب وقتِ عصر پر پلٹ گیا