ذرّے ذرّے کی آغوش میں نور ہے

ذرّے ذرّے کی آغوش میں نور ہے یہ مگر آشکارا مدینے میں ہے

سارا عالم تجلی بد اماں سہی لیکن اک عالم آرا مدینے میں ہے


سر خوشی چاہیئےتو مدینے چلو زندگی چاہیئے تو مدینے چلو

زندگی کی بہاریں مدینے میں ہیں کیف سارے کا سارا مدینے میں ہے


کیف و مستی میں ڈوبی ہوئی رات ہے گوشے گوشے میں رحمت کی برسات ہے

مصطفؐےٰ کے مدینےکی کیا بات ہے حاصلِ ہر نظارا مدینے میں ہے


درد جس کی توجہ کا محتاج ہے جسکی چوکھٹ پہ جھکنا تو معراج ہے

غمزدہ بیکسوں کی جسے لاج ہے ہاں وہ آقا دل آرا مدینے میں ہے


دل بھی صدقے کیا نذرکی جان بھی روح تسکین پائے تو پائے کہاں

دور رہ کر جئیں کس طرح ہم یہاں جب کہ سب کچھ ہمارا مدینے میں ہے


مرکزِ اہلِ ایماں نہ کیوں کر رہے ہر بلندی یہاں کیوں نہ سجدے کرے

کعبہ اس بات کا خود بھی ہے معترف کعبےوالے کا پیار ا مدینے میں ہے


نا امیدی سے تیرا نہیں واسطہ تُو تو ہے قائلِ رحمتِ کبریا

خالدِ ؔ بینوا باندھ رختِ سفر بیکسوں کا سہارا مدینے میں ہے

شاعر کا نام :- خالد محمود خالد

کتاب کا نام :- قدم قدم سجدے

دیگر کلام

ہو گیا روشن جہاں ماہِ رسالت آگئے

میں ریاض نبی میں بیٹھا ہوں

اے صاحبِ معراجﷺ

سرورِ سروراں فخرِ کون و مکاں

اُمیدیں لاکھ ٹو ٹیں تم کرم پر ہی نظر رکھنا

آپؐ کے لفظوں کی خوشبو اور صدا میں قید ہوں

نسیمِ صبح گفتار ابوبکر

انب منزل محبوب سفر میرا ہے

روز محشر سایہ گستر ہے جودامان رسولﷺ

یارب یہ تمنّا ہے کہ نازل ہو وہ ہم پر