اصحاب یوں ہیں شاہِ رسولاں کے ارد گرد

اصحاب یوں ہیں شاہِ رسولاں کے ارد گرد

جیسے ستارے ماہِ درخشاں کے ارد گرد


باغِ جناں کی سیر کو جی چاہتا نہیں

پھیرے کیے ہیں ایسے گلستاں کے ارد گرد


اک آنکھ سوئے عشق ہے اک آنکھ سوئے فرش

کونین ہیں ہمارے دل و جاں کے ارد گرد


پروانہ بن کے آگئے سدرہ سے جبرئیل

وہ نورِ حق ہے شمعِ فروزاں کے ارد گرد


جب سے زیارت شہِ والا ہوئی نصیب

کونین بس گئے مرے ایماں کے ارد گرد


حسنین یوں حضور کے آغوش و دوش پر

اعراب جیسے آیہء قرآں کے ارد گرد


روح الامیں سے سیکھئے آدابِ نعتِ پاک

برسوں رہے ہیں حضرتِ حسّاں کے ارد گرد


حرمین پہنچا دیکھتے ہی کربلا صبؔیح

کیا معجزے ہیں شاہِ شہیداں کے ارد گرد

کتاب کا نام :- کلیات صبیح رحمانی

دیگر کلام

حسرتا وا حسرتا شاہِ مدینہ الوداع

اس کی قسمت پر فدا

نور و رحمت دا خزینہ اے مدینے والا

اہلِ طائف ! کیا کِیا ہے اور تُم کو کیا ملا

کہیں پر عُود اور عنبر کہیں پر گُل بچھاتے ہیں

محفلِ سیدِ کونین جہاں ہوتی ہے

میں ریاض نبی میں بیٹھا ہوں

گماں تھے ایسے کہ آثار تک یقیں کے نہ تھے

نہ انعاماتِ عقبیٰ سے نہ دنیائے دَنی سے ہے

صَلِّ عَلٰی نَبِیِّنا