بہر سو آج برپا محفلِ ذکرِ رسالت ہے

بہر سو آج برپا محفلِ ذکرِ رسالت ہے

جہاں میں ہر طرف نظارۂ جشنِ ولادت ہے


طریقِ مصطفائی میں ہی روحِ دینِ فطرت ہے

فلاحِ زندگی کا راستہ راہِ شریعت ہے


اندھیرے کفر و باطل کے جہاں سے ہوگئے رخصت

بہر سو پرتوِ تابانیِ ماہِ نبوت ہے


جو دہقاں تھے عرب کے پاگئے طرزِ جہاں بانی

مرے سرکار کا صدقہ دو عالم کی حکومت ہے


قیامت تک گماں کی دسترس میں آنہیں سکتی

حدِ ادراک سے آگے نبیؐ کی شانِ رفعت ہے


عمل سے بھی تو بن جا سنتِ سرکار کا پیرو

رسولِ پاکؐ سے گر واقعی تجھ کو عقیدت ہے


فقط دعویٰ نبی سے عشق کا جنت نہیں دے گا

جو پابندِ شریعت ہے وہی حقدارِ جنت ہے


نہیں بوبکر کا کوئی بھی بعدِ انبیا ثانی

سوا نوعِ نشر میں آپ کی شانِ فضیلت ہے


نہ کیوں تاریخ میں عدلِ عمر کا بول بالا ہو

مثالی حضرت ِفاروق کی شانِ عدالت ہے


نہیں ملتی کہیں تمثیل دنیا میں سخاوت کی

جنابِ حضرتِ عثماں کی وہ شانِ سخاوت ہے


جسے سرکار نے خود بابِ شہرِ علم فرمایا

وہ ذاتِ مرتضیٰ ہے پیکرِ فہم و فراست ہے


نہ چھوٹے دامنِ آئینِ مدحت تیرے ہاتھوں سے

بہت ہی پُر خطر احسؔن رہِ نعتِ رسالت ہے

شاعر کا نام :- احسن اعظمی

کتاب کا نام :- بہارِ عقیدت

دیگر کلام

سبھی عکس تیری شبِیہ کے

وقت کی دھڑکنیں خوف سے بند ہیں

نگا ہوں میں ہے سبز گنبد کا منظر

میرا سویا مقدر جگا دیجیے

میرے دل دے اُجڑے گلشن وچ تیری یاد دے نال آبادی اے

مدیحِ شاہِ زمن کا مرید کر رہا ہوں

تم نقشِ تمنائے قلمدان رضا ہو

ہاں اگر تجھ کو حیاتِ جاودانی چاہئے

شاہِ ہر دوسرا آپ ہیں آپ ہیں

محمد مصطفے بن کے خدا دا رازداں آیا