چھٹ گئی کفر و باطل کی تیرہ شبی آفتابِ رسالت کی پھوٹی کرن

چھٹ گئی کفر و باطل کی تیرہ شبی آفتابِ رسالت کی پھوٹی کرن

شرق سے غرب تک جگمگانے لگے وادی و دشت و صحرا، بیاباں، چمن


بے کسوں کی ہوئی دور ہر بے کسی، غم زدوں کے ہوئے دور رنج و محن

مژدۂ شادمانی لیے آگئے، آمنہ بی کے گھر آج شاہِ زمن


بارشِ امنِ عالم کے دن آگئے ابرِ جود و کرم چار سو چھا گئے

پا گئے ظلم سے راحتِ واقعی شعلۂ آتشِ غم میں جلتے بدن


دشتِ طیبہ ہو وادی ہو کہسار ہو، پھول ہو خار ہو دھوپ ہو، دھول ہو

سب نگاہِ محبت کو محبوب ہے، ان کے آگے بہارِ عدن


کیوں نہ توصیفِ سرور کروں میں بیاں شان میں ان کی قرآں ہے رطب اللساں

بالیقیں کام آئے گی روزِ جزا نعت گوئی کی یہ دولتِ فکر و فن


عظمتوں والے ہیں عاشقانِ نبیؐ ان کی ٹھوکر میں ہے شان شاہنشہی

والہانہ فدا جس پہ فرزانگی ہے وہ عشّاقِ آقاؐ کا دیوانہ پن


اس کو پوشاکِ شاہی کی حاجت نہیں خوش لباسی کی اس کو ضرورت نہیں

خرقۂ حُبِ شاہنشہِ دو جہاں جس غلامِ نبی نے کیا زیب تن


خیرِ امت کی آقاؐ نے کی جب دعا سر بسجدہ ہوئے ربِ هب لی کہا

ہو گیا بحرِ فیضِ الٰہی رواں جوش میں آگئی رحمتِ ذو المنن


نعت گوئی کی جب سے سعادت ملی آگئی فن میں احسؔن کے پاکیزگی

ایسی فکرِ رسا کو بلندی ملی ہوگیا اوج پر اس کا ذوقِ سخن

شاعر کا نام :- احسن اعظمی

کتاب کا نام :- بہارِ عقیدت

دیگر کلام

مجھ کو قسمت سے جو آقاؐ کا زمانہ ملتا

کر ذکر مدینے والے دا ایہدے چہ بھلائی تیری اے

نعت بھی ہے صورتِ درود

جس نے نمازِ عشق ِ شہ ِ دیں ادا نہ کی

نہ ایں کہہ کر پکاریں گے نہ آں کہہ کر پکاریں گے

رحمت کی بھیک سید ابرار چاہیے

پھر یاد جو آئی ہے، مدینے کو بلانے

خدا کا بندہ ہمارا آقا

یہ ناز یہ انداز ہمارے نہیں ہوتے

سرورِ دو جہاں کو ہمارا سلام