نعت بھی ہے صورتِ درود

نعت بھی ہے صورتِ درود

اس پہ بھی ہے حسرتِ درود


خیر کی ہے قدرِ معتبر

سب کے حق میں رحمتِ درود


ہمنوا خدا کے ہوگئے

جب ملی سعادتِ درود


بچ گئے ہیں ہر عذاب سے

ہم ہیں اور جنتِ درود


تیر ہیں جو غم کے بے شمار

ڈھال ہے تلاوتِ درود


یہ ہے مشکلوں کی شہ کلید

اے خوشا محبتِ درود


موجبِ قبولِ ہر دعا

وردِ با کرامتِ درود


مستقل ہے اس کا آسرا

دائمی ہے لذّتِ درود


ہے بھلائی اس میں خَلق کی

عام کیجے دعوت درود


ہے قلیل اب تو زندگی

اب تو کیجے کثرتِ درود


زندگی میں حسن و خیر ہو

اے خدا بدولتِ درود


پھیلتی ہی جائے سُو بسُو

جاں فروز نکہتِ درود


یا الہٰی حشر تک رہے

زیست میں حرارتِ درود


ہو محیط کائنات پر

فیضِ بے نہایت درود


تائب اک خزانہء ثنا

بن گئی ہے دولت درود

شاعر کا نام :- حفیظ تائب

کتاب کا نام :- کلیاتِ حفیظ تائب

دیگر کلام

پھر نبی کی یاد آئی زلف شہگوں مشکبار

کیہنوں میں دُکھ پھول سناواں کیہنوں میں پھٹ کھول دکھاواں

ظلمتیں چھٹ گئیں

جھکا کے اُنؐ کی عقیدت میں سر مدینے چلو

اے بِیابانِ عَرب تیری بہاروں کو سلام

دل میں ترا پیغام ہو آقائے دو عالم ؐ

معیارِ اہلِ دین ہےاُسوہ حضور ﷺکا

شہد نالوں مٹھے تیرے بول کملی والیا

قربان میں اُن کی بخشش کے

کون اٹھائے سر تمہارا سنگِ در پانے کے بعد