دور آنکھوں سے در نہ جائے کہیں
خلد منظر گزر نہ جائے کہیں
بعد مدّت کے طیبہ آیا ہوں
پھر مقدّر بکھر نہ جائے کہیں
ان کے نعلین پر ہے آنکھ جمی
اور جانب نظر نہ جائے کہیں
چھپ کے بیٹھا ہوں خوفِ عصیاں سے
رو سیہ کی خبر نہ جائے کہیں
آدمی آئے ان کے روضے پر
’’اور پھر عمر بھر نہ جائے کہیں‘‘
پڑھ درود ان پہ ، ذکر کر ان کا
نشّۂ عشق اتر نہ جائے کہیں
بات کرتے ہو کیوں پلٹنے کی
زائر طیبہ مر نہ جائے کہیں
پیشِ روضہ جو روح تک اترا
کیفِ جنت اثر نہ جائے کہیں
کشتیِ جاں پہ ہو نگاہِ کرم
غم سمندر بپھر نہ جائے کہیں
جاگ طاہرؔ! ہو ان کا نعت سرا
رات یوں ہی گزر نہ جائے کہیں
شاعر کا نام :- پروفیسر محمد طاہر صدیقی
کتاب کا نام :- ریاضِ نعت