گرد گرد لمحوں میں
عکس بے شمار اُترے
رنگ سینکڑوں بکھرے
لاکھوں تاروں نے آکر
اپنا نور پھیلایا
اپنے اپنے وقتوں میں
اپنے اپنے جلوؤں سے
آئینے کو چمکا یا
لیکن اب بھی دھندلا تھا
آئینہ ہدایت کا
گرد اُن زمانوں کی
دھول داستانوں کی
تھی ابھی بہت باقی
پھر وہ چہرہ بھی چمکا
جو امر رسالت کا
آخری حقیقت کا
تا بناک سورج تھا
جس کے گرد نورانی
لازوال ہالے تھے
علم کے اُجالے تھے
دھول ہٹ گئی ساری
گرد چھٹ گئی ساری
اب کبھی نہ اُبھرے گا
عکس تا ابد کوئی
جگمگا دیا اس نے
آئینہ ہدایت کا
شاعر کا نام :- سید صبیح الدین صبیح رحمانی
کتاب کا نام :- کلیات صبیح رحمانی