گزرے جس راہ سے وہ سیِّدِ والا ہو کر

گزرے جس راہ سے وہ سیِّدِ والا ہو کر

رہ گئی ساری زَمیں عَنْبرِ سارا ہو کر


رُخِ اَنور کی تجلی جو قمر نے دیکھی

رہ گیا بوسہ دہِ نقشِ کفِ پا ہو کر


وَائے محرومیِ قسمَت کہ میں پھر اب کی برس

رہ گیا ہمرہِ زَوّارِ مدینہ ہو کر


چمنِ طیبہ ہے وہ باغ کہ مُرغِ سِدرہ

برسوں چہکے ہیں جہاں بلبلِ شیدا ہو کر


صَرْصَرِ دَشتِ مَدینہ کا مگر آیا خیال

رَشکِ گلشن جو بنا غُنْچۂ دِل وا ہو کر


گوشِ شہ کہتے ہیں فریاد رَسی کو ہم ہیں

وَعدۂ چشم ہے بخشائیں گے گویا ہو کر


پائے شہ پر گِرے یارب تپشِ مہر سے جب

دلِ بے تاب اُڑے حشر میں پارا ہو کر


ہے یہ امّید رضاؔ کو تِری رحمت سے شہا

نہ ہو زِندانیِ دوزخ تِرا بندہ ہو کر

شاعر کا نام :- احمد رضا خان بریلوی

کتاب کا نام :- حدائقِ بخشش

دیگر کلام

نبی کے ٹھکانے سرِ آسماں ہیں

ترے منگتے کی یہ پیہم صدا ہے یا رسولؐ اللہ

ہاتھ باندھے ہوئے خدمت میں کھڑی ہے دنیا

رحمتِ بے کراں مدینہ ہے

پھر مدینہ کا سفر یاد آیا

کس بات کی کمی ہے مولا تری گلی میں

گدا نواز در لطف کا گدا رکھنا

دلوں سے غم مٹا تا ہے پنجابی مکس

میرا نبی جیسا ہے کوئی ایسا ہو تو بات کرو

سُن کے اقرا کی صداساری فضا کیف میں ہے