ہم نے سیکھا اُسوۂ سرکارسے
کُچھ سنورتا ہے تو بس کردار سے
فیض جتنا بھی ہے طول و عرض میں
بٹ رہا ہے کُوچۂ سرکار سے
مل گیا اِذنِ حضوری ، شُکر ہے !
پھر بُلاوا آ گیا دربار سے
منزلِ مقصود تک پہنچا ہے وہ
جُڑ گیا جو قافلہ سالار سے
حالِ دل اُنکو سُنا کر جی اُٹھے
بوجھ ہلکا ہو گیا اِظہار سے
ارضِ طیبہ میں شہا ! عاشق ترے
پھر رہے ہیں کیف میں سرشار سے
خاکِ در بخشی شِفا کے واسطے
حالِ دل جب سُن لیا بیمار سے
غیر کی چوکھٹ پہ جائیں کس لئے
مل رہا ہے جب ترے دربار سے
بخش دیتا ہے خُدائے عزّ و جلّ
بس گُناہوں کے وہاں اِقرار سے
آج تک غارِ حرا میرے کریمْ !
جگمگاتی ہے ترے انوار سے
حُسن کی خیرات بٹتی ہے جلیل
کُل جہاں کو چہرۂ سرکار سے
شاعر کا نام :- حافظ عبدالجلیل
کتاب کا نام :- لمعاتِ مدحت