ہر پھول کو فیضاں تری تعطیر سے پہنچا

ہر پھول کو فیضاں تری تعطیر سے پہنچا

بلبل کو ترنم تری تدویر سے پہنچا


اے افصحِ مخلوق ! سرِ عرشِ بلاغت

جبریلِ تکلم تری تقریر سے پہنچا


ہے خضر سرِ چاہِ مہِ مصر ، کہ وہ خط

تا چاہِ ذقن عارضِ تنویر سے پہنچا


ہم وقت کی افواجِ یزیدی کو مٹادیں

آلات شہا ! جذبۂِ شبّیر سے پہنچا!


ہے ذکرِ قیامت بھی ضروری پئے تخویف

ہم کو یہ سبق سورۂِ تکویر سے پہنچا


ہے لازمِ ہربزم رسالت کا بھی نعرہ

کب فیض فقط نعرۂ تکبیر سے پہنچا؟


کس صنف سے سرمایہ ادب کو مِلا ، جیسا

اردو کو تری نعت کی تاثیر سے پہنچا


اس لوحِ معارف کی ثنا لکھنے کو ، جبریل!

اَقلام مجھے خامۂ تقدیر سے پہنچا!


بس دیکھتا ہی رہ گیا طیبہ کو معظمؔ

پیرس سے گیا یا کوئی کشمیر سے پہنچا

شاعر کا نام :- معظم سدا معظم مدنی

کتاب کا نام :- سجودِ قلم

دیگر کلام

جد رات پئی تے سوہنے نوں رب کول بلا کے ویکھ لیا

تیرے نام سے ہی تو میرا بھرم ہے

اگر قسمت سے میں ان کی گلی میں خاک ہو جاتا

بختِ سیاہ جب درِ عالی پہ رکھ دیا

جوت سے ان کی جگ اُوجیالا

اس کو ہے دو جہان کی راحت ملی ہوئی

مدحت کے پھول پیش کروں بارگاہ میں

آقا کرم کماویں آقا کرم کماویں

نبی سرورِ ہر رسول و ولی ہے

بام و در شہر طیبہ پر رحمت دن رات برستی ہے