نبی سرورِ ہر رسول و ولی ہے

نبی سرورِ ہر رسول و ولی ہے

نبی راز دارِ مَعَ اللہ لِی ہے


وہ نامی کہ نامِ خُدا نام تیرا

رؤف و رحیم و علیم و علی ہے


ہے بیتاب جس کے لئے عرشِ اعظم

وہ اس رہروِ لامکاں کی گلی ہے


نکیرین کرتے ہیں تعظیم میری

فِدا ہو کے تجھ پر یہ عزّت ملی ہے


طلاطم ہے کشتی پہ طوفانِ غم کا

یہ کیسی ہوائے مخالف چلی ہے


نہ کیوں کر کہوں یا حبیبی اَغِثْنِی

اِسی نام سے ہر مصیبت ٹلی ہے


صبا ہے مجھے صرصرِ دشتِ طیبہ

اِسی سے کلی میرے دِل کی کِھلی ہے


تِرے چاروں ہمدم ہیں یک جان یک دِل

ابوبکر فاروق عثمان علی ہے


خدا نے کیا تجھ کو آگاہ سب سے

دو عالم میں جو کچھ خفی و جلی ہے


کروں عرض کیا تجھ سے اے عالِم السِّر

کہ تجھ پر مری حالتِ دِل کُھلی ہے


تمنّا ہے فرمایئے روزِ محشر

یہ تیری رِہائی کی چِٹھی مِلی ہے


جو مقصد زِیارت کا بر آئے پھر تو

نہ کچھ قصد کیجے یہ قصدِ دِلی ہے


تِرے در کا دَرباں ہے جبریلِ اعظم

تِرا مدح خواں ہر نبی و ولی ہے


شفاعت کرے حشر میں جو رضاؔ کی

سِوا تیرے کس کو یہ قُدرت مِلی ہے

شاعر کا نام :- احمد رضا خان بریلوی

کتاب کا نام :- حدائقِ بخشش

دیگر کلام

ماہِ رَبیعُ الاوّل آیا

آنکھیں سوال ہیں

شہرِ طیبہ تیرے بازار مہکتے ہوں گے

میں نوکر ہوں شاہِ مدینہ کا سُن لو

نامِ شاہِ اُممؐ دل سے لف ہو گیا

وکھا دے مولا اسانوں گلی مدینے دی

میں تو خود ان کے در کا گدا ہوں اپنے آقا کو میں نذر کیا دوں

ہر سانس ہجر شہ میں برچھی کی اک اَنی ہے

کونین کے گوشے گوشے پر

ہر طرف نُور پھیلا ہوا دیکھ لوں