حَرم کے زائر صفا کے راہی

حَرم کے زائر صفا کے راہی منیٰ و عرفات کے مسافر

کہیں ہماری بھی گفتگُو تھی ، کوئی ہمارا بھی تذکرہ تھا؟


قبُول کر کے درُود میرے ، پیام سُن کر ،سلام لے کر

حضُورؐ نے کچھ کہا تو ہوگا اگر کہا تھا تو کیا کہا تھا ؟


مزارِ اقدس کو جن سے دیکھا اب اُن نگاہوں سے مجھ کو دیکھو

وہ حشر دل میں اٹھاؤ میرے وہاں جو تم پر گزر رہا تھا


ہماری گمراہیوں کے قِصّے ہماری بدبختیوں کا عالم

حضورِ آقاؐ بیاں کیا تھا تو کِس طرح سے بیاں کیا تھا


ہمارے رونے کی بات کی تھی تو اشک آنکھوں میں تھے تمہارے ؟

ہماری آہوں کے تذکرے پر تمہارے دِل سے دھواں اُٹھا تھا؟


وہ آہ اک بار پھر تو کھینچو جو دِل سے اُٹّھی تھی وقتِ گریہ

وہ سیلِ گریہ مُجھے دکھاؤ جو وقتِ رخصت رواں ہوا تھا


مری طرف سے بہ چشمِ گریاں یہ بات تم نے کہی تو ہوگی

اُسے بھی تھی حاضری کی حسرت اُسے بھی رحمت کا آسرا تھا

شاعر کا نام :- حنیف اسعدی

کتاب کا نام :- ذکرِ خیر الانام

دیگر کلام

نہ دنیا نہ جاہ و حشم مانگتا ہوں

ایسی بھی ہے مرے آقاؐ کے نگر کی خوشبو

مشک و عنبر چار سُو ، انوار بھی

اساں دنیا نوں کی کرنا تے کاروبار کی کرنا

اتنی کشش کہاں بھلا باغِ ارم میں ہے

بارگاہِ نبوی میں جو پذیرائی ہو

وقتی کہ شوم محوِ ثنائے شہِ لولاک

پایا جو لطف شاہِ مدینہؐ کی چاہ میں

نظر آتے نہیں حالات اور آثار ،یا اللہ

اے میریا سوہنیا محبوبا میری تقدیر سنواری جا