مشک و عنبر چار سُو ، انوار بھی

مشک و عنبر چار سُو ، انوار بھی

خوبصورت ہیں در و دیوار بھی


اُن کے قدموں میں ٹھکانہ مل گیا

’’بے گھری کے مٹ گئے آثار بھی‘‘


ارضِ بطحا ، مرحبا ، صد مرحبا !

پُھول بن جاتے ہیں اس جا خار بھی


ارضِ بطحا ، ہے سبھی جنت نشاں

رہگزر بھی ، کُوچہ و بازار بھی


شاہِ والا کے مراتب دیکھ کر

عقل کی گرنے لگی دستار بھی


جس جگہ جا کر نبی بیٹھے رہے

اب تلک مہکی ہوئی ہے غار بھی


نامِ نامی آپ کا ، میرے لئے

ہے سفینہ ، بادباں ، پتوار بھی


میرے آقا کے جو ہیں سچے غُلام

با وفا ہیں ، صاحبِ کردار بھی


صاحبانِ سیف بھی ہیں ساتھ ساتھ

ہے بلا کی جرأتِ للکار بھی


اِس جلیلِ بے نوا کے ، آپ ہیں

چارہ گر بھی،مُونس و غمخوار بھی

شاعر کا نام :- حافظ عبدالجلیل

کتاب کا نام :- مشکِ مدحت

دیگر کلام

گُذرا وہ جِدھر سے ہوئی وہ راہ گذر نُور

سخی کی نعت ضروری ہے زندگی کے لیے

شافعِ روزِ محشر ہمارے نبی

یہاں شور جائز تھا پہلے نہ اب ہے

میرے لوں لوں دے وچہ رچیا ناں اے ترا ذکر تیرا میری زندگی سوہنیا

عشق شہ دیں مر کے بھی مرنے نہیں دیتا

اے شہ انس و جاں جمالِ جمیل

اکھاں وچہ اتھرو نہیں رُکدے درداں نے گھیرا پایا اے

جڑ گئے وہ رحمتوں کے خوش نما منظر کے ساتھ

تم پر میں لاکھ جان سے قربان یا رسولﷺ