حرف کے مالک و مختار نے مسرور کیا

حرف کے مالک و مختار نے مسرور کیا

مدحتِ سرورِ کونین پہ مامور کیا


ناز ہو مجھ کو مقدر پہ شہا ،آپ نے گر

کاسۂ چشم کو دیدار سے معمور کیا


چوم کر ہم نے تصور میں سنہری جالی

صدمۂ فرقتِ سرکار کو کافور کیا


اب کوئی منظرِ پر کیف لبھاتا ہی نہیں

گنبدِ سبز نے ایسا مجھے مسحور کیا


میں بھی ہوں محورِ کون و مکاں کا شیدائی

مجھ کو تقدیر نے یونہی نہیں مغرور کیا


مجھ کو اللہ نے مدحت کی اجازت دے کر

مجھ سے گمنام کو سنسار میں مشہور کیا


چند لمحے جو مواجہ پہ حضوری کے ملے

بارشِ نور نے اشفاق شرابور کیا

شاعر کا نام :- اشفاق احمد غوری

کتاب کا نام :- زرنابِ مدحت

دیگر کلام

تیرے قدموں کی آہٹ

سجا ہے لالہ زار آج نعت کا

مدیحِ شاہِ زمن کا مرید کر رہا ہوں

مقدر سارے عالم کا تمہارے نام سے چمکا

یا محمد ہے سارا جہاں آپ کا

ہزار بار مرے دل نے کی سکوں کی تلاش

ہر ویلے منگاں میں دعاواں کملی والیا

راستہ دکھاتا ہوں نعت کے اجالے سے

مسرور زیرِ لب ہے حرف سوال میرا

دھرم کرم سے کئی گنا ہے بڑھ کر پریم کا مرم(