جب ہجرِ طیبہ نے مُجھے مضطر بنا دیا
مَیں نے بھی چشمِ تر کو سمندر بنا دیا
اے جانِ گلستاں مُجھے دیدار ہو نصیب
آنکھوں کو تیرے غم نے گُلِ تر بنا دیا
زندانِ غم میں تیری شعاعِ خیال نے
دیوار میں شگاف کیا دَر بنا دیا
ساری ازل ابد کی بہاریں سمیٹ کر
ربِّ جمیل نے ترا پیکر بنا دیا
تیرے رُخِ مبیں سے کرن لے کے مستعار
سُورج بنا دیا مہِ انور بنا دیا
تخلیق کی گئی ترے انفاس سے ہَوا
خوشبوؤں سے گُلابِ معطّر بنا دیا
کِن پتّھروں کو تُو نے کیا آئِنہ مثال
کِن آئِنوں کو صاحبِ جوہر بنا دیا
راتوں کو نفی کر کے ہماری حیات سے
صُبحوں کو آدمی کا مقدّر بنا دیا
مَیں جیسا بننا چاہتا تھا تیرے لُطف نے
مُجھ کو مِرے خیال سے بہتر بنا دیا
دولت عطا ہُوئی مُجھے فقرِ غیور کی
شاہوں کو مُجھ فقیر سے کمتر بنا دیا
میری روش غبارِ پسِ کارواں تھا مَیں
تیرا کرم غبار کو شہپر بنا دیا
تیرے سبب تسلسلِ معراج ہے نماز
عرشِ عُلےٰ کے پاس مرا گھر بنا دیا
عاصیؔ پڑھو درُود کہ اِس موجِ عطر نے
میرے نفس نفس کو معطّر بنا دیا
شاعر کا نام :- عاصی کرنالی
کتاب کا نام :- حرف شیریں