جبین شب پر رقم کیے حرف کہکشاں کے
نصیب بدلے ہیں آپ نے ظلمت جہاں کے
خدا سے بندوں کو آپ کتنا قریب لائے
مٹا دیے فاصلے تھے جو کچھ بھی درمیاں کے
ضعیف لوگوں کے حق میں قد آوری کا پیغام
وہ بے نوا کی نوا مددگار ناتواں کے
نصاب تہذیب و آگہی کے چراغ دے کر
یقیں اُجالوں کو کر دیا ساتھ کارواں کے
وہ روشنی جس سے راہ پاتا ہے ہر زمانہ
نقوش پا ہیں کہ ہیں چراغ آیند گاں کے
در نبی پر دُعائیں اشکوں میں ڈھل رہی ہیں
کہ کھل رہے ہیں گناہ گاروں پر در اماں کے
چراغِ اسم نبی ہوا لب پہ کیا فروزاں
صبیحؔ روشن ہوئے ہیں ایوان جسم و جاں کے
شاعر کا نام :- سید صبیح الدین صبیح رحمانی
کتاب کا نام :- کلیات صبیح رحمانی