جہل کا سرورِ ابلاغ پہ خم تو نے کیا

جہل کا سرورِ ابلاغ پہ خم تو نے کیا

ظلمت کفر کو خورشید حرم تو نے کیا


بت پرستی بھی کھینچی آئی صدا پر تیری

دیدۂ سنگ کو کس پیار سے نم تو نے کیا


جس سے انکار کوئی قوم نہیں کرسکتی

آدمیت پہ وہ احسان وہ کرم تو نے کیا


چاند تاروں سے بھی آگے تھی رسائی تیری

آسمانوں کو مشرف بہ قدم تو نے کیا


خاص ٹہری تو فقط تیری نبوت ٹہری

عام اللہ کو اللہ قسم تو نے کیا


چل پڑیں لوگ بھٹک کر نہ جُدا رستوں پر

اس لیے دین میں دنیا کو بھی ضم تو نے کیا


اس قدر تو کوئی ماں بھی نہ تڑپتی ہوگی

جس قدر اُمت بیمار کا غم تو نے کیا


تا ابد علم کی دنیائیں کرے گا آباد

حرف جو وقت کی لہروں پہ رقم تو نے کیا


شعر گوئی تو مظفر کو خدا نے بخشی

اپنا مداح اِسے شاہِ امم تو نے کیا 

شاعر کا نام :- مظفر وارثی

کتاب کا نام :- نورِ ازل

دیگر کلام

داسی موہے بول دے سیاں

کتب میں یکتا کتاب ٹھہری

کیہنوں میں دُکھ پھول سناواں کیہنوں میں پھٹ کھول دکھاواں

جسے عشق شاہ رسولاں نہیں ہے

سارے دُکھاں دی تے درداں دی دوا ملدی اے

شہِ کون و مکاں موجود شب جائے کہ من بودم

کھو یا کھو یا ہے دل

عالِم ظاہر و مَبطون ! اے امین و مامون

دل مدینے کے تصور میں بہل جائیں گے

بہارِ بے خزاں آئی گلِ تر مسکراتے ہیں