جھکیں اونچے اونچے شجر اُس کے آگے

جھکیں اونچے اونچے شجر اُس کے آگے

زمیں چُومیں شمس و قمر اُس کے آگے


اُسے دیکھ کر خود بخود مسکرائے

فرشتوں کی نیچی نظر اُس کے آگے


ادب کا تقاضہ نہ ہو پھر بھی پورا

میں پلکیں بچھاؤں اگر اُس کے آگے


بڑا لُطف آئے مجھے جاں کنی میں

اگر ختم ہو یہ سفر اُس کے آگے


پڑا ہو کوئی جیسے در پر سوالی

سمٹتے ہیں یوں بحر و بر اُس کے آگے


شفاعت کی اُمید پر روزِ محشر

کھڑے ہوں گے سارے بشر اُس کے آگے


میں کیسے بھلا اُس کے روضے کو دیکھوں

میں کیسے اُٹھاؤں نظر اُس کے آگے


کرے رقص اُس کے لیے بزمِ انجؔم

بچھے راستوں میں سحر اُس کے آگے

شاعر کا نام :- انجم نیازی

کتاب کا نام :- حرا کی خوشبُو

دیگر کلام

چھڈ دے طبیبا دارو تینوں کی پتا اے

آباد خدا رکھے ساقی ترا مے خانہ

اللہ کرم اللہ کرم آباد رہے نعتوں کا جہاں

جس دم ان کی نعت پڑھی ہے

جن و اِنسان و مَلک کو ہے بھروسا تیرا

مر کے اپنی ہی اداؤں پہ امر ہو جاؤں

بخش دے میری ہر اِک خطا یاخدا

شہر مکہ بھی شہر کیسا تھا

میرے سید و سرور اے حبیب ربانی

اے شمع رسالت تیرے پروانے ہزاروں ہیں