جھکیں اونچے اونچے شجر اُس کے آگے
زمیں چُومیں شمس و قمر اُس کے آگے
اُسے دیکھ کر خود بخود مسکرائے
فرشتوں کی نیچی نظر اُس کے آگے
ادب کا تقاضہ نہ ہو پھر بھی پورا
میں پلکیں بچھاؤں اگر اُس کے آگے
بڑا لُطف آئے مجھے جاں کنی میں
اگر ختم ہو یہ سفر اُس کے آگے
پڑا ہو کوئی جیسے در پر سوالی
سمٹتے ہیں یوں بحر و بر اُس کے آگے
شفاعت کی اُمید پر روزِ محشر
کھڑے ہوں گے سارے بشر اُس کے آگے
میں کیسے بھلا اُس کے روضے کو دیکھوں
میں کیسے اُٹھاؤں نظر اُس کے آگے
کرے رقص اُس کے لیے بزمِ انجؔم
بچھے راستوں میں سحر اُس کے آگے
شاعر کا نام :- انجم نیازی
کتاب کا نام :- حرا کی خوشبُو