جو بھی درِ رسول کے ہو جائے روبرو
پھر زندگی میں کیا ہو بھلا اُس کی جُستجو
آدم سے پیشتر بھی تھے چرچے حضور کے
اب بھی انہی کے نام کا چرچا ہے کُو بکُو
تُجھ سا شہا ہوا ہے نہ ہوگا کہیں کوئی
ہر اِک زبان پر یہی رہتی ہے گُفتگو
ذرّے سے آفتاب تلک سب ہی عبد ہیں
منصب مرے رسول کا لیکن ہے عبدہْ
جس رہ سے ایک بار بھی آقا گزر گئے
وہ رہگزار آج بھی رہتی ہے مُشکبو
اِس دورِ ابتلا میں بھی تیرے جو ہو گئے
ڈنکا اُنہی کے نام کا بجتا ہے چار سُو
وہ خوش نصیب تھے جو تری بزمِ ناز میں
تیرے رُخِ حَسین کو تکتے تھے رُوبرو
بیٹی ، درندگی کا جو ہوتی رہی شکار
تُو نے بچائی بیٹی کی سرکار آبرو
صُلحِ حُدیبیہ ہو کہ مکّہ میں عفوِ عام
کوئی نہیں جہان میں تُجھ ایسا صُلح جُو
قرآن میں ہے ذکر تری نرم خوئی کا
سب ہیں ترے جوار میں تُو ہے جو نرم خُو
تیرے حَسن ، حُسین کی تعریف کیا کروں
جو خال و خد میں ہیں تری تصویر ہُو بہو
جس کو گدائی آپ کے در کی عطا ہوئی
وہ ہی تو ہیں جلیل زمانے میں سُرخرو
شاعر کا نام :- حافظ عبدالجلیل
کتاب کا نام :- لمعاتِ مدحت