جو یادِ نبیؐ میں نکلتے ہیں آنسو

جو یادِ نبیؐ میں نکلتے ہیں آنسو

گراں موتیوں میں وہ ڈھلتے ہیں آنسو


اُمڈتا ہے آنکھوں میں گویا سمندر

جو دھیرے سے پلکوں پہ چلتے ہیں آنسو


جونہی یاد آتی ہیں طیبہ کی گلیاں

نہیں پھر سنبھالے سنبھلتے ہیں آنسو


تصور میں لاتا ہوں جب بھی مدینہ

تو بے ساختہ یہ ابلتے ہیں آنسو


گریں گے یہ ارضِ مدینہ پہ جا کر

مری چشمِ تر میں جو پلتے ہیں آنسو


خوشا! ان کا روضہ مرے سامنے ہے

نکلنے کو اب یہ مچلتے ہیں آنسو


اثاثہ یہی ہیں جلیلِ حزیں کا

جو نکلیں تو قسمت بدلتے ہیں آنسو

شاعر کا نام :- حافظ عبدالجلیل

کتاب کا نام :- رختِ بخشش

دیگر کلام

اے شہر مدینہ تو مقدر کا دھنی ہے

یوں مرے اللہ نے عظمت بڑھائی آپ کی

بابِ شاہِ عرب ہے چلے آئیے

انوار سے مہکتی زمیں جنت البقیع

دہر کی وجہ نظام آپ ہیں

یاالہٰی رحم فرما مصطفٰی کے واسطے

توحید کا مژدہ دنیا کو سرکار سنانے والے ہیں

رُتبہ عالی شان ملا ہے

اَلَا یٰایُّھَا السَّاقِیْ اَدِرْ کَاْسًاوَّ نَاوِلْھَا

ثنا کی خو درودوں کی بدولت ساتھ رہتی ہے