خراب حال کیا دِل کو پُرمَلال کیا

خراب حال کیا دِل کو پُرمَلال کیا

تمہارے کُوچہ سے رُخصت کیا نہال کیا


نہ رُوئے گُل ابھی دیکھا نہ بُوئے گُل سُونگھی

قضا نے لا کے قفس میں شکستہ بال کیا


وہ دل کہ خوں شدہ ارماں تھے جس میں مل ڈالا

فُغاں کہ گورِ شہیداں کو پائمال کیا


یہ رائے کیا تھی وہاں سے پلٹنے کی اے نفس

سِتم گر اُلٹی چُھری سے ہمیں حلال کیا


یہ کب کی مجھ سے عداوت تھی تجھ کو اے ظالِم

چُھڑا کے سنگِ درِ پاک سر وَبال کیا


چمن سے پھینک دیا آشیانۂ بلبل

اُجاڑا خانۂ بے کس بڑا کمال کیا


تِرا ستم زدہ آنکھوں نے کیا بِگاڑا تھا

یہ کیا سمائی کہ دُور ان سے وہ جمال کیا


حضور اُن کے خیالِ وطن مٹانا تھا

ہم آپ مِٹ گئے اچھا فراغ بال کیا


نہ گھر کا رکھا نہ اس دَر کا ہائے ناکامی

ہماری بے بسی پر بھی نہ کچھ خیال کیا


جو دِل نے مَر کے جلایا تھا منّتوں کا چراغ

سِتَم کہ عرض رہِ صرصر زَوال کیا


مَدینہ چھوڑ کے وِیرانہ ہندؔ کا چھایا

یہ کیسا ہائے حواسوں نے اِختلال کیا


تُو جس کے واسطے چھوڑ آیا طیبہ سا محبوب

بتا تو اس ستم آرا نے کیا نہال کیا


اَبھی اَبھی تو چمن میں تھے چہچہے ناگاہ

یہ دَرْد کیسا اُٹھا جس نے جی نڈھال کیا


الٰہی سُن لے رضاؔ جیتے جی کہ مولیٰ نے

سگانِ کوچہ میں چہرہ مِرا بحال کیا

شاعر کا نام :- احمد رضا خان بریلوی

کتاب کا نام :- حدائقِ بخشش

دیگر کلام

اللہ دے محبوبا کالی کملی والیاں سائیاں

حق اللہ کی بولی بول

سرورِ کونینؐ کا دریائے رحمت واہ واہ

مشکِ جاں ساز رگِ جاں میں بسا ہووے ہے

کچھ اس ادا سے تصوّر میں آپ آتے ہیں

ہو عطا اپنا غم، تاجدارِحرم

دو جہاں میں کوئی تم سا دوسرا ملتا نہیں

بگڑی ہوئی بنتی ہے ہربات مدینے میں

گنبدِ خضرا کی چاہت کا نشہ آنکھوں میں ہے

کمان نور دا گھیرا مدینہ