خود کو دیکھا تو ترا جُود و کرم یاد آیا

خود کو دیکھا تو ترا جُود و کرم یاد آیا

تجھ کو دیکھا تو مصوّر کا قلم یاد آیا


صبح پھُوٹی تو ترے رُخ کی ضیا یاد آئی

چاند نکلا تو ترا نقشِ قدم یاد آیا


کعبہ دیکھا تو تری بُت شَکنی یاد آئی

خُلد دیکھتی تو ترا صحنِ حرم یاد آیا


ہم نے اعدا کے مظالم کا گِلہ چھوڑ دیا

ذات پر تیری جو اپنوں کا ستم یاد آیا


دیکھ کر جھُوٹے خداؤں کی سخا کا دستور

مجھ کو سرکار کا اندازِ کرم یاد آیا


روشنی تَیرگئی حدِّ نظر تک اعظؔم

جب بھی وہ ماہِ عرب ، مہرِ عجم یاد آیا

شاعر کا نام :- محمد اعظم چشتی

کتاب کا نام :- کلیاتِ اعظم چشتی

دیگر کلام

ازل سے رواں ہیں

تیرے در تے میں آ جھولی وچھائی قبلہ عالم

ہر چند بندگی کی جزا ہی کچھ اور ہے

گزر جائیں گے ہنستے کھیلتے سارے مراحل سے

گُذرا وہ جِدھر سے ہوئی وہ راہ گذر نُور

نبی اے باقی جہان فانی

کونین میں یُوں جلوہ نُما کوئی نہیں ہے

خدا کی حمد زباں پر نبی کی مدحت ہے

لب پر نعتِ پاک کا نغمہ کل بھی تھا اور آج بھی ہے

خدا سے کہیں مصطفیٰ کون ہے