کیا خوب حاضری کے یہ امکان ہو گئے

کیا خوب حاضری کے یہ امکان ہو گئے

پھر سے مدینہ پاک کے مہمان ہو گئے


کتنے کٹھن تھے راستے چارہ نہ تھا کوئی

ان کی نظر ہوئی ہے تو آسان ہو گئے


تحفے دُرود کے لیے قدموں میں آ گئے

ایسے کُھلے نصیب کہ حیران ہو گئے


حاصل ہوئی جو دولتِ دیدار یوں لگا

بن کر بھکاری آئے تھے سلطان ہو گئے


آنکھوں میں روضہ پاک کے منظر سمو لیے

پورے تمام ناز کے ارمان ہو گئے

شاعر کا نام :- صفیہ ناز

کتاب کا نام :- شرف

دیگر کلام

درد و آلام کے مارے ہوئے کیا دیتے ہیں

رکھتے نہیں ہیں جو درِ خیر البشرؐ پہ ہاتھ

آخِری روزے ہیں دل غمناک مُضطَر جان ہے

بھردو جھولی مری یا محمدؐ لوٹ کر میں نہ جاؤں گا خالی

دربار رسالت کی کیا شان نرالی ہے

بنے دیوار آئینہ ترے انوار کے باعث

اب کے بھی صبا ان کے در سے اِدھر آجانا

جان ہیں آپؐ جانِ جہاں آپؐ ہیں

سب نبیاں دا پیر ہے سوہنا

ہم کو پتہ ہے شمس یہ ضوافگنی کا راز