کوئی محبُوبِ کِبریا نہ ہوا

کوئی محبُوبِ کِبریا نہ ہوا

کوئی تجھ سا ترے سوا نہ ہوا


روزن دل سے جھانکنے والے

آج تک تیرا سامنا نہ ہوا


کون ہے اُس کا ، تُو نہیں جس کا

اور کس کا ہے جو ترا نہ ہوا


حق نے کب تیری بات ٹالی ہے

کون سے دن ترا کہا نہ ہوا


تجھ پہ کیا کیا ستم نہ ڈھائے گئے

تجھ سے کس شخص کا بھلا نہ ہوا


ہم پہ کتنا وہ مہرباں ہوگا

جس سے دشمن کا دل بُرا نہ ہوا


حاصلِ بندگی تھا وہ سجدہ

جو تری ذات کو روا نہ ہوا


ضبط کے تار ٹوٹ ٹوٹ گئے

جب کوئی قافلہ روانہ ہوا


حسرتیں اُڑ گئیں دھواں بن کر

لب کُشائی کا حوصلہ نہ ہوا


شعر تو شعر قُرب میں اُن کے

ہم سے اظہارِ مدّعا نہ ہوا


سبز گُنبد پہ کیا نظر پڑتی

سر تو دہلیز سے جُدا نہ ہوا


التجا کی زباں ہے نعتِ رسُول ؐ

اس میں شامل کبھی گِلہ نہ ہوا


تھی یہی غایتِ حیات اعظؔم

پھر بھی مِدحت کا حق ادا نہ ہوا

شاعر کا نام :- محمد اعظم چشتی

کتاب کا نام :- کلیاتِ اعظم چشتی

دیگر کلام

میرے ہر لفظ کی ، ہر حرف کی تحسین ہوئی

گنبدِ خضریٰ ہے اے دل آج تیرے روبرو

آبروئے زمین

تیرے سوہنے مدینے توں قربان میں

روشن ہوا تھا غارِ حِرا کل کی بات ہے

آئے مرے حضورؐ تو منظر بدل گئے

آپ کے در کے جو بھی گدا ہو گئے

یہ حسرت یہ تمنا ہے ہماری یار سول اللہ

وہاں حضور کے خدّامِ آستاں جائیں

پر نور نہ ایماں کی ہو تصویر تو کہیے