کیا ہوا آج کہ خوشبو سی ہوا میں ہے

کیا ہوا آج کہ خوشبو سی ہوا میں ہے تجلی سی فضا میں ہے مہکتی ہوئی گلیاں ہیں چٹکتی ہوئی کلیاں ہیں چمن کیف میں جھومے ہے فلک وجد میں گھومے ہے سجی آج یقینا کہیں پھر نعت کی محفل

نکہتیں لیتی ہیں انگڑائیاں چو طرفہ ہیں رعنائیاں قدسی کی قطاریں ہیں درودوں کی بہاریں ہیں سماں برکتوں والا ہے اجالا ہی اجالا ہے کہ سرشار ہے آقا کی محبت میں ہر اک روح ہر اک دل


رب نے سرکار کو ہر چیز میں کثرت سے نوازا ہے کلام ان پہ اتارا ہے شفیع ان کو بنایا ہے رسولوں کے وہ خاتم ہیں مکرم ہیں معظم ہیں قیامت کی گھڑی میں وہ امیدوں بھری ہر ایک کی منزل

رب کی رحمت کے وہ ضامن ہیں بڑے ان کے محاسن ہیں وہ سرکارِ دو عالم ہیں دکھی دل کی وہ راحت ہیں گنہگاروں کے یاور ہیں اسیروں کے محافظ ہیں وہ طوفانِ حوادث کے بھنور میں ہیں ہر اک ناؤ کے ساحل


زندگی ان کے ہی دم سے ہے جہاں ان کے کرم سے ہے وہی باعثِ خلقت ہیں وہ ماذونِ شفاعت ہیں وہ گنجینہء رحمت ہیں جہاں والوں کے ہر کام میں ان کا ہی کرم رہتا ہے شامل

مصحفِ پاک میں نعت ان کی خصوصی ہیں صفات ان کی رسولوں کے وہ سرور ہیں ہر اک جنس سے برتر ہیں منور ہیں معطر ہیں دو عالم کے وہ محور ہیں وہ مخلوقِ خدا کی ہر اک امید کے حاصل


ان کے گن گائے ہیں نبیوں نے صحیفوں میں بیاں ان کا زمیں والوں میں ذکر ان کا فلک والوں میں نعت ان کی انہیں رب نے سراہا ہے کہ محبوب بنایا شبِ معراج بلایا ہیں سبھی عظمتیں ہیچ ان کے مقابل

ان کے قدموں کا یہ صدقہ ہے دو عالم میں جو بٹتا ہے زمانے کو جو ملتا ہے زباں دانی انہیں کی ہے جہاں بانی انہیں کی ہے وہی جود سخا والے عطا والے نبی سارے انہیں کے در اقدس کے ہیں سائل


عرش سے فرش تلک ان کا ہی چرچا ہے ہر اک لب پہ ثنا ان کی شجر ہو کہ حجر برگ و ثمر شمس و قمر خشکی و تر سب میں ہے نور ان کا ہر اک شے میں ظہور ان کا وہی رب کی عطا سے ہیں ہر اوصاف کے حامل

فیض نظمی پہ رضا کا ہے کلام اس کا مسجع ہے مقنیٰ ہے مرصع ہے سبھی کرتے ہیں حیرت کہ سخن کا یہ سلیقہ کہاں سیکھا کہ سخنور صفِ اول کے ترے فن تری ندرت تری مشاقی کے قائل

کتاب کا نام :- بعد از خدا

دیگر کلام

ترستی تھیں ترے دیدار کو

ملا جس کی نسبتوں سے یہ عروج آگہی کو

تسلیم کر لئی جنہاں عظمت حضور دی

صَلّ اللّٰہ علیہِ وسلّم

پہنچ ہی گیا میں وہاں روتے روتے

جس کو چاہا میٹھے مدینے کا اس کو مہمان کیا

کسی کو خود رفتگی ملی ہے کسی کو خود آگہی ملی ہے

میں راہ میں ہوں گنبدِ خضرا ہے نظر میں

پاک نبی تے لکھ درُود پاک نبی تے لکھ درُود

بسی ہے جب سے وہ تصویرِ یار آنکھوں میں