ملا جس کی نسبتوں سے یہ عروج آگہی کو

ملا جس کی نسبتوں سے یہ عروج آگہی کو

اسی در کی آرزو ہے مرے ذوق ِ بندگی کو


مرا دین اور دنیا نو الگ الگ نہیں ہیں

میں سمجھ رہا ہوں سب کچھ ترے در کی حا ضری کو


میرے آنسوؤں کی قیمت نہ سمجھ سکے گی دنیا

مجھے کیا دیا ہے تو نے یہ بتاؤں کیوں کسی کو


وہ کریم جس کا دامن ہے عدو پہ بھی کشادہ

میں خراب ہوں تو کیا ہے مری لاج ہے اسی کو


ترا غم مسرتوں کا ہے ابد قرار ضامن

شب و رو ز مل رہا ہے نیا حسن زندگی کو


کوئی نامراد ہو کر ترے آستاں سے جائے

نہ ہوا کبھی گوارا تری بندہ پروری کو


اے ازل ابد کے ساقی ابھی کچھ کمی ہے باقی

وہ نظر اٹھا جو بھر دے میرے غمِ تشنگی کو


وہ شعور چاہتا ہوں وہ نگاہ چاہتا ہوں

تری روشنی سمجھ لے جو ہر اک روشنی کو


وہ خدا نعتِ سرورؐ سے بُہت ہی خوش ہے خالدؔ

وہ نکھارتا رہے گا مرے حُسنِ شاعری کو

شاعر کا نام :- خالد محمود خالد

کتاب کا نام :- قدم قدم سجدے

دیگر کلام

ایسا کوئی محرم نہیں پہنچائے جو پیغامِ غم

اے جانِ ردائف ! دلِ انواعِ قوافی !

کوئی مقام نہیں ہے درِ نبیؐ کی طرح

وقتِ آخر حضورؐ آ جانا

میرا مولا اے دو عالم دا والی

عارضِ شمس و قمر سے بھی ہیں انور ایڑیاں

بے مثل ہے سماعتِ آقائے دو جہاں

ہے سراپا اُجالا ہمارا نبیؐ

تڑپدے رات دن رہنا تے اشکاں دی روانی ایں

حکم سرکار کی جانب سے اگر آئے گا