لب پر ہیں مرے سیدِ ابرار کی باتیں

لب پر ہیں مرے سیدِ ابرار کی باتیں

کرتی ہوں بیاں محرمِ اسرار کی باتیں


توصیف کروں آپ کے پیکر کی میں ایسے

ہوں زُلف و جبیں رنگت و رُخسار کی با تیں


گزرے ہیں جدھر سے بھی وہ رستہ رہا مہکا

مشہور ہیں وہ آپ کی مہکار کی باتیں


صادق ہیں امیں آپ کی گفتار ہے میٹھی

کفار بھی کرتے تھے یہ کردار کی باتیں


روشن ہے قمر سے مرے سرکار کا چہرہ

کرتا ہے فلک آپ کے انوار کی باتیں


اے ناز تو کرتی رہے قرآں کی تلاوت

آیات ہیں اللہ کے شہکار کی باتیں

شاعر کا نام :- صفیہ ناز

کتاب کا نام :- شرف

دیگر کلام

ہے واقعی جہاں میں وہ شیدا رسولؐ کا

ؐپھر اُٹھا ہاتھ بہرِ دعا یا نبی

کیا پوچھتے ہو عزّت و عظمت رسُولؐ کی

عام سی بات تھی قطرے کا گہر ہو جانا

ملے گا بخشش کا سب کو مژدہ

جو یادِ نبیؐ میں نکلتے ہیں آنسو

نورِ امکا ں کا خزانہ درِ والا ان کا

خدا دی سب خدائی مل گئی اے

ہر ایک لفظ کے معنی سے اک جہاں پیدا

سبز گنبد مصطفےٰ ﷺ کا پیارا روضہ چھوڑ کر