مچی ہے دھوم کہ نبیوں کے تاجور آئے

مچی ہے دھوم کہ نبیوں کے تاجور آئے

سراپا نور ہیں جو بن کے وہ بشر آئے


خوشا نصیب مبارک ہو یہ گھڑی سب کو

خدا کے پیارے نبی آمنہ کے گھر آئے


فضائیں مہکی ہیں عالم میں ہے بہار آئی

سماں ہے جشن کا سلطانِ بحر و بر آئے


ہے عرش و فرش پہ خوشیوں کا اک نیا موسم

چراغ جلنے لگے مصطفیٰ جدھر آئے


ہزار سجدے کروں چوم لوں میں نقشِ قدم

مرے سفر میں جو آقا کی رہ گزر آئے


اے ناز تجھ پہ ہو احسان شاہِ بطحا کا

وہ آئیں گھر میں مرے کاش وہ سحر آئے

شاعر کا نام :- صفیہ ناز

کتاب کا نام :- شرف

دیگر کلام

لفظِ سکون میں بھی کہاں اس قدر سکوں

اے شافعِ اُمَم شہِ ذِی جاہ لے خبر

اڑان فکر و فن کی پھر سے کامیاب ہو گئی

سب دا آقا کملی والا

عمل سب سے بڑا طاعت حبیبِ ِکبریا کی ہے

اے قضا ٹھہر جا اُن سے کرلوں ذرااِک حسیں گفتگو آخری آخری

نظر آتے ہیں ہر ذرّے میں نظّارے مُحمّد کے

لائے تشریف دنیا میں شاہِ حجاز

کیا خوب حاضری کے یہ امکان ہو گئے

ہے یہ دیوان اُس کی مدحت میں