مدینہ ہے اور جلوہ سامانیاں ہیں

مدینہ ہے اور جلوہ سامانیاں ہیں

حبیبِ دو عالم کی مہمانیاں ہیں


اِدھر عاصیوں کی پشیمانیاں ہیں

اُدھر رحمتوں کی فراوانیاں ہیں


تصدّق ہوں اے قبہء نور تجھ پر

عجب تیرے جلوؤں کی تابانیاں ہیں


نگاہوں کی فردوس ہے بزمِ طیبہ

جِدھر دیکھئے جلوہ سامانیاں ہیں


حریمِ رسالت کا فیضان ہے یہ

پریشانیاں ہیں نہ حیرانیاں ہیں


شبِ قدر ہو یا فروغِ سحر ہو

یہ سب تیرے جلوؤں کی تابانیاں ہیں


میسّر ہیں جن کو ترے دَر کے جلوے

انھیں کی سرافراز پیشانیاں ہیں


مدینہ کہاں اور کہاں میری قسمت

تری رحمتوں کی فراوانیاں ہیں


حمیدؔ ان کی رنگینیاں کوئی دیکھے

یہ اشعار ہیں یا گل افشانیاں ہیں

شاعر کا نام :- نامعلوم

دیگر کلام

بات اُن کی اگر سُنی ہوگی

ہیں واقف مِری دھڑکنوں سے طلب سے

یا شہِ ارض و سما امداد کو آجائیے

بیکسوں سے ہے جنہیں پیار وہی آئے ہیں

محبوب مدینے والے دے دس درد دیاں ریساں کون کرے

رُخِ مصطفٰیؐ کی ہے روشنی

سوما سعادتاں دا اے رحمت حُضورؐ دی

جہانِ رنگ و بو کی نکہتوں میں مصطفیٰ ڈھونڈوں

نہ آہٹ ہے نہ پیکر ہے نہ پرچھائیں نہ سایہ ہے

سیر گلشن کون دیکھے دشتِ طیبہ چھوڑ کر