مہِ صفا کی تجلّیوں سے چمک ا ٹھا ریگ زارِ بطحا

مہِ صفا کی تجلّیوں سے چمک ا ٹھا ریگ زارِ بطحا

تمام دُورو درازِ عالم ، تمام قرب و جوارِ بطحا


خدائے بر تر نے جس کو چاہا ، زمانے بھر نے جسے سراہا

وہ ہے اطاعت گزارِ اسرا ، وہ ہے صداقت اشعارِ بطحا


وہ جو ہر ِ دود مانِ ہاشم ، خدا کی نعمت کا جو ہے قاسم

رسائی جس کی ہے لامکاں تک وہ بے بدل شہسوارِ بطحا


وُہ ارضِ پُر نور بس رہی ہے، مری نگاہوں میں میرے دل میں

فدائے طیبہ نظر ہے میری تو فکر وفن ہے نثارِ بطحا


یہ آرزو ہے کہ زودتر ہو زیارتِ روضہ پیمبرؐ

وہ دن پھر آئے خدا دکھائے مجھے بھی لیل و نہارِ بطحا


برس پڑے گر سحابِ رحمت، چھٹے نہ کیوں پھر غبار ِ کلفت

کھِلیں نہ کیوں ذہن و دِل کے غنچے جو دیکھ لوں میں بہارِ بطحا


عزیز ہے جان و دل سے مجھ کو وطن کی عزّت کی حرمت

عزیز تر لیکن ان سے تائب ہے آبروئے دیارِ بطحا

شاعر کا نام :- حفیظ تائب

کتاب کا نام :- کلیاتِ حفیظ تائب

دیگر کلام

ہے پاک رُتبہ فکر سے اُس بے نیاز کا

یہ کہتی ہیں قضائیں زندگی دو چار دن کی ہے

دل میرا چھیڑی بیٹھا اے اج درد تے غم دیاں تاراں نوں

آپ کا نام ہر اک درد کا درمان تو ہے

جبینِ شاہِ امم رشکِ صد قمر ہوئی ہے

کشتیاں اپنی کنارے پہ لگائے ہوئے ہیں

آنکھوں میں بس گیا ہے مدینہ حضور کا

جِس منگیا درد محبت دا اس فیر دوا کیہہ کرنی ایں

سب زمانوں سے افضل زمانہ ترا

لوائے حمد اُن کے ہاتھ میں ہو گا