محبوب دو جہاں کی کوئی کیا مثال دے

محبوب دو جہاں کی کوئی کیا مثال دے

بے جان سنگریزوں میں جو جان ڈال دے


رہتا ہے وہ مدینے میں مشکل کشا مرا

دم بھر میں مشکلوں سے جو مجھ کو نکال دے


ہے مانگنا اگر تو حبیب خدا سے مانگ

ممکن نہیں وہ در سے تجھے خالی ٹال دے


میرے کریم اپنے نواسوں کے نام پر

دونوں جہاں کی نعمتیں جھولی میں ڈال دے


مجھ کو نہیں ہے دولت دنیا کی کچھ طلب

سائل ہوں تیرا تو مجھے عشق بلال دے


بے حال کر رہے ہیں زمانے کے غم حضور

اپنی عنایتوں سے بدل میرا حال دے


دیکھوں ترا جمال تو پھر دیکھتا رہوں

اتنی مری نگاہ کو تاب جمال دے


قلب حزیں کو جب نہ کہیں سے ملے سکوں

تسکین اس گھڑی فقط ترا خیال دے


خاموش کب سے در پہ ترے ہے کھڑا فقیر

مرے کریم اس کو بھی اذن سوال دے


آقا غم حیات کی اس تیز دھوپ میں

سایہ تو مجھ پہ چادر رحمت کا ڈال دے


ساقی ترا بھلا ہو ترے میکدے کی خیر

اک جام مستیوں کا ادھر بھی اچھال دے


گاؤں گا اس کے خلق کے میں گیت عمر بھر

جو سنگ دل کو موم کی صورت میں ڈھال دے


ایسے سخی نبی کا نیازی ہوں امتی

جو پل میں بے کمال کو شان کمال دے

شاعر کا نام :- عبدالستار نیازی

کتاب کا نام :- کلیات نیازی

دیگر کلام

کہاں زبانِ سخن ور، کہاں ثنائے حبیبؐ

پڑھو صلِّ علیٰ نبینا صلِّ علیٰ محمدٍؐ

جس کی دربارِ محمد میں رسائی ہوگی

آفتاب ِ رسالت نہ اُبھرا تھا جب

نہ دنیا نہ جاہ و حشم مانگتا ہوں

ذکرِ سرکار سے ہے فضا مطمئن

اللہ! کوئی حج کا سبب اب تو بنا دے

کرم کی ایسی بہار آوے

مَیں آوارہء کُوئے مُحمّؐد

سجدوں کا اثر اور ہے جلوں کا اثر اور