محفلِ دہر کا پھر عجب رنگ ہے

محفلِ دہر کا پھر عجب رنگ ہے

زندگی کا چلن سخت بے ڈھنگ ہے


امن کا لفظ پابندِ معنی نہیں

سارے عالم پہ اُمڈی ہوئی جنگ ہے


سِحرِ زر سے ہے پتّھر ضمیر جہاں

عرصہ زیست نادار پر تنگ ہے


پھول ہیں ہر ہوس کار کے واسطے

اہلِ حق کے لیے بارشِ سنگ ہے


تار الجھے ہوئے سازِ ہستی کے ہیں

بے اثر پھر صداقت کا آہنگ ہے


اشرف الخلق کے فکر و کردار پر

دم بخود ہے زمیں آسماں دنگ ہے


اتّباعِ شریعت کےدعوے تو ہیں

روح شیدائے تقلیدِ افرنگ ہے

شاعر کا نام :- حفیظ تائب

کتاب کا نام :- کلیاتِ حفیظ تائب

دیگر کلام

تو سرگروه انبیا رحمت کی تجھ پر انتہا

ریزہ تِرا پایا کریں خاقان وغیرہ

تیری عظمت کا ہو کیسے کچھ بیاں ربِّ کریم

قرآن ہے ، دیوان ہے ، قاری ہے ، مدحت خوان ہے

صَلّ اللّٰہ علیہِ وسلّم

زمین و زماں تمہارے لئے مَکِین و مکاں تمہارے لئے

کس قدر ساماں ہیں میرا دل دُکھانے کے لیے

ان لوگوں کی قسمت کے تابندہ ستارے ہیں

جرات نہیں کسی کو جہاں قیل و قال کی

کیا عزت و شہرت ہےکیاعیش و مسرت ہے