میرے آقا میرے لج پال مدینے والے

میرے آقا میرے لج پال مدینے والے

میرے حالات بدل ڈال دینے والے


اپنی آنکھوں سے لگاؤں میں سنہری جالی

مجھ کو بلوائیے ہر سال مدینے والے


جھولی بھر دیجئے حسنین کا صدقہ میری

مجھ کو کر دیجئے خوشحال مدینے والے


ہے کرم شاہ و گدا پر ترا یکساں آقا

تو ہے لج پالوں کا لج پال مدینے والے


آل اطہار کے میں گیت ہمیشہ گاؤں

خوش رہے مجھ سے تری آل مدینے والے


اپنے دُکھ درد سناؤں میں کسے ترے بغیر

جز ترے کون سنے حال مدینے والے


خشک ہے شاخ تمنائے زیارت کب سے

با ثمر اس کو بھی کر ڈال مدینے والے


عیب محشر میں کہیں کھلنے نہ پائیں میرے

رکھیو دامن میں بہر حال مدینے والے


آستانے پہ ترے سر ہو نیازی کا جھکا

ہو بلند اس کا بھی اقبال مدینے والے

شاعر کا نام :- عبدالستار نیازی

کتاب کا نام :- کلیات نیازی

دیگر کلام

پرندے فکر کے جب مائلِ پرواز ہو جائیں

بند کر ساقیا نہ ابھی میکدہ میں ہوں امیدوار آخری آخری

اُن پہ لکھنا شِعار ہے میرا

تمہی محبوبِ رب العالمیں ہو

رسول میرے مِرے پیمبر درود تم پر سلام تم پر

شہر نبیؐ کے منبر و مینار چُومنا

بن کملی کملی والے دی پھراں طیبہ دے بازاراں وچ

اے قضا ٹھہر جا اُن سے کرلوں ذرااِک حسیں گفتگو آخری آخری

جو میرے لجپال نبی کی دیوانی متوالی ہے

مدح سرا قرآن ہے جس کا تم بھی اسی کی بات کرو