مجھ پر شہِ عرب کا ہر دم کرم رہے

مجھ پر شہِ عرب کا ہر دم کرم رہے

لکھتی رہوں میں نعتیں چلتا قلم رہے


جنبش نہ ہو لبوں کو سانسیں پڑھیں درود

عشقِ نبی ہو دل میں اور آنکھ نم رہے


ہو فکر میری روشن آقا کے نور سے

اور نعت کی نوازش یوں دم بدم رہے


مجھ کو ملے غلامی آقا کی آل کی

پوری ہو یہ تمنا کچھ تو بھرم رہے


ارمان ہے ازل سے طیبہ میں جا بسوں

آنکھوں کے سامنے پھر پیارا حرم رہے


شاہا ترے ذکر میں ہے ناز کا سکوں

ایسے ہی عمر گزرے کوئی نہ غم رہے

شاعر کا نام :- صفیہ ناز

کتاب کا نام :- شرف

دیگر کلام

باطل کے جب جب بدلے ہیں تیور

کیا مژدۂ جاں بخش سنائے گا قلم آج

سنا کر نعت ذوقِ نعت کی تکمیل کرتے ہیں

من ناچت ہے من گاوت ہے تورا جنم دیوس جب آوت ہے

خلوت میں کبھی یاد جو آئی ترے در کی

رُواں رُواں مرا روتا ہے چشمِ تر کی طرح

چراغِ ایماں کی لَو کو تلوار کر رہا ہوں

غلام حشر میں جب سیّد الوریٰ کے چلے

در پہ آ کر کھڑا ہے بھکاری شہا

ہونٹوں پہ سجایا ہے درودوں کا لبادہ