غلام حشر میں جب سیّد الوریٰ کے چلے
لِوائے حمد کے سائے میں سر اُٹھا کے چلے
چراغ لے کے جو عُشّاق مصطفیٰؐ کے چلے
ہوائے تُند کے جھونکے بھی سَر جھُکا کے چلے
وہیں پہ تھم گئی اک بار گردشِ دوراں
جہاں بھی تذکرے سُلطانِ انبیاؑء کے چلے
ہے دیدنی یہ مدینے کے عاشقوں کا چلن
جبیں پہ خاکِ درِ مصطفیٰؐ سجا کے چلے
یہ کس کا شہر قریب آرہا ہے دیکھو تو
دُرود پڑھتے ہوئے قافلے ہَوا کے چلے
نہیں ہے کِبر کی رُخصت حرم میں زائر کو
ادب کا ہے یہ تقاضا کہ سر جھُکا کے چلے
وہ اُن کا فقر سلیماں کو جس پہ رشک آئے
وہ اُن کا حُسن کہ یوسفؑ بھی مُنہ چھُپا کے چلے
سرِ نیاز جھُکایا جنہوں نے اُس دَر پر
وہ خوش نصیب ہی دنیا میں سر اُٹھا کے چلے
نشے کی علّت حُرمت میں تھا یہ پہلو بھی
کہ پُل صراط پہ مومن نہ لڑکھڑا کے چلے
طلب ہوئی سر قَوسَین جب شبِ اسرٰی
حُضورؐ، واقفِ منزل تھے، مُسکرا کے چلے
اُنہیں کی زیست ہوئی آبرو کے ساتھ بسر
جو اُن کی چادرِ نسبت میں سر جھُپا کے چلے
نظر بہ عالَمِ پاکیزگی پڑے اُن پر
مسافرانِ لحد اِس لئے نہا کے چلے
جنابِ آمنہؓ اُٹھیں بلائیں لینے کو
جو تاج سر پہ شفاعت کا وہ سجا کے چلے
نصیرؔ اُن کے سوا کون ہے رسول ایسا
جو بخشوانے کو آئے تو بخشوا کے چلے
نصیرؔ! تجھ کو مبارک ہو یہ ثبَاتِ قدم
کہ اِس زمیں میں اکابر بھی لڑکھڑا کے چلے
شاعر کا نام :- سید نصیرالدیں نصیر
کتاب کا نام :- دیں ہمہ اوست