مجھے یقیں ہے

مجھے یقیں ہے

وہ سن رہے ہیں نگاہِ خاموش کی صدائیں


دُکھوں سے بوجھل مری نوائیں

وہ جانتے ہیں


ہزارہا درد و غم کی شمعیں

فسردہ سینوں میں جل رہی ہیں


یہ جسم و جاں جو شکست خوردہ ہیں سوچتے ہیں

غم و الم کی جو دھوپ پھیلی ہوئی ہے اس میں


کرم کے بادل سروں پہ اک سائباں بنانے

دیارِ رحمت سے کیوں نہیں اُٹھ سکے ابھی تک


مجھے یقیں ہے

اور اس یقیں پر حیاتِ امروز کا تسلسل


حیاتِ فردا کی خوش دلی کی طرف رواں ہے

یہ دورِ جبر و ستم بہت جلد دُور ہوگا


محبتوں کا ظہور ہوگا

کرم نبی کا ضرور ہوگا

کتاب کا نام :- کلیات صبیح رحمانی

دیگر کلام

خوشیاں مناؤ بھائیو! سرکار آگئے

بگڑی ہوئی امت کی تقدیر بناتے ہیں

مان ناں توڑیں میرا آقا

میرے خیال دا محور گلی مدینے دی

جب سرِ حشر مرا نام پُکارا جائے

اب تو بس ایک ہی دُھن ہے کہ مدینہ دیکھوں

حیاتی مینوں جے ہووے عطا ہور

یا نبیؐ کھولیے زبانِ کرم

بخدا خدا سے ہے وہ جدا جو حبیبِ حق پہ فدا نہیں

آتے رہے نبی و رُسُل ہر نبی کے بعد