منتخب اشعار
سخن کو زیب ہے نعتِ رسولؐ جب طاہرؔ
بدن پہ اُس کے غزل کا لباس کیوں ہو گا
خیر خواہی امّتِ مرحوم کی
سیکھیے شاہِؐ عرب سے مانگنا
ویزہ طیبہ کا شکر ہے طاہرؔ
کرکے کتنی ہی کوششیں لایا
ہمیں کرنا مہیا کنجِ مدحت
بنیں گے جب ترے مہمان تربت!
بفیضِ نسبتِ صدیقؓ طاہرؔ
بنی ہر درد کا درمان تربت
تخیّل مجھ کو لے جاتا ہے سدرہ سے کہیں آگے
مرے وجدان کی رف رف کے ہے اسوار سے نسبت
علامت فاختہ کی امن کے داعی بناتے ہیں
سکینت کی ضمانت ہے مگر سرکارؐ سے نسبت
عطا ہے بیٹوں کی طاہرؔ اسی کی برکت سے
ہیں بیٹیاں بھی عنایت بفیضِ رحمتِ نعت
چومتا ہوں نبیؐ کے در کو میں
ہوتی جاتی ہے بابِ نعت پہ نعت
نعت پہ نعت تھی حضوری میں
اب ہے لیکن غیابِ نعت پہ نعت
تذکارِ نبیؐ ہے مرے گفتار کی زینت
ہر نعت ہے پیرایۂ اظہار کی زینت
ہے لمسِ قدومِ شہِؐ کونین کے صدقے
قسمت میں ہے جو عرش کے ، انوار کی زینت
مسلّط کفر نے کر دی ہے آقاؐ جنگ امّت پر
حصارِ زندگانی کس قدر ہے تنگ امّت پر
اسے نصرت عطا ہو تین سو تیرہ صحابہؓ کی
چڑھے بدری حمیت کا وہ انمٹ رنگ امّت پر
پچھتر سال سے کشمیر پر ہندو مسلّط ہے
قیامت بن کے ٹوٹے ہیں یہود افرنگ امّت پر
کہیں گولی کی تڑ تڑ ہے کہیں وحشت دھماکوں کی
ہے جیسے صورِ اسرافیل کا آہنگ امّت پر
لہو اغیار کے ہاتھوں میں گروی رکھ کے زندہ ہیں
اماں آور ہو نازل کوئی اب اورنگ امّت پر
درود خواں ہیں ہمہ وقت دھڑکنیں اس میں
ہمارے سینے میں دل ہے درودیوں کا گھر
ہے عجب نعت کا مقطع سے طلوع
لطفِ رب نعت کا مقطع سے طلوع
یا نبیؐ! بخشیں ہمیں اپنی اماں
ہے ستم آمادہ کافر دور تک
بات کر کے نسبتِ صدیقؓ کی
لے گیا مجھ کو مقرِّر دور تک
جب مدینے کی مقدّس سر زمیں پر ہو قیام
دل کو ہوتا ہے فقط سرکارؐ کی چوکھٹ سے کام
خلوتِ شب میں تصوّر کے طفیل
جانبِ شہرِ نبیؐ چلتے ہیں ہم
بھاگتی تھی ڈھونڈنے پانی کو ماں
حاجرہ ، مہر و وفا کی ترجماں
ایک ماں تھی وادیِ بے زرع میں
اور اک بیٹا تھا زیرِ آسماں
ایڑیاں رگڑیں جو پیاسے طفل نے
چشمۂ زمزم کیا رب نے رواں
شہرِ آقاؐ کو میں روانہ ہوں
خلدِ طیبہ کو میں روانہ ہوں
حاصل ہیں زندگی کا ، فردِ عمل کی زینت
جتنی نبیؐ کے در پر ہم نے گزاری راتیں
انگلیوں کو تسبیحیں ہم بناتے ہیں تو کیوں
انگلیوں کی پوروں پہ انگلیاں اٹھاتے ہیں
در عطا کے کھلتے ہیں
جب درود پڑھتے ہیں
روبرو مواجہ کے
اشک عرض کرتے ہیں
زبور انجیل میں توریت میں جملہ صحائف میں
تری کامل رسالت کے اشارے ہی اشارے ہیں
نعت کے صحیفے ہیں
آسماں سے اترے ہیں
موت سے بھی مشکل تر
واپسی کے لمحے ہیں
مواجہ پاک پہ آنکھیں ہی اشکبار نہ تھیں
ہمارے دستِ دعا پر بھی تھے سجے آنسو
سمجھیں اذنِ حضوری آیا
آتی ہے جب ڈاک نبیؐ جی
دل سے اُڑ کر یہ بلبلِ مدحت
سبز گنبد کے قرب میں چہکی
میرے وطن کی سمت ہو ٹھنڈی ہوا کا رخ
آقاؐ ہے عرض آپ کی عالی جناب سے
میری کتاب حضرتِ جبریلؑ کے ہے نام
ہے باغ باغ دل مرا اس انتساب سے
معتکف رہا ہوں میں چھت پہ ان کی مسجد کی
دھیان اب بھی زینے کے آس پاس رہتا ہے
نعت ان کی خدا کی رحمت ہے
جیسے بیٹی خدا کی رحمت ہے
دیکھ کر شیخین کو پہلو میں شاہِؐ دین کے
ارتقا پاتی دلوں میں دوستی کی سوچ ہے
آنکھوں میں رواں قافلہ طیبہ کا ہے رہتا
دل شہرِ مدینہ کے مسافر کی طرح ہے
آتا ہے تو مٹ جاتی ہے سورج کی تمازت
بادل بھی ترے شہر کے زائر کی طرح ہے
میں خوش ہوں بہت اس پہ کہ ہر نعت کا مصرع
روضے کے تنک تاب مناظر کی طرح ہے
ہو مرے بختوں میں بوسہ آپؐ کے نعلین کا
مدتوں سے میرے دل میں حسرت و ارمان ہے
صدیقؓ اہتمامِ خلافت سے عمر بھر
عہدِ نبیؐ کی یاد دلاتے چلے گئے
شاعر کا نام :- پروفیسر محمد طاہر صدیقی
کتاب کا نام :- ریاضِ نعت