شہرِ طیبہ تیرے بازار مہکتے ہوں گے

شہرِ طیبہ تیرے بازار مہکتے ہوں گے

تیری گلیوں سے جو سرکارﷺ گزرتے ہوں گے


حسنِ کامل سے کوئی نظر ہٹائے کیسے

دیکھنے والے اُنہیں دیکھتے رہتے ہوں گے


مست گنگھور گھٹائیں اُمڈ آتی ہوں گی

اُن کے چہرے پہ اگر گیسو بکھرتے ہوں گے


مسکرا کر وہ کبھی بات جو کرتے ہوں گے

خوشبوئیں پھیلتی اور رنگ بکھرتے ہوں گے


جا کر جبرئیل ؑ نے پھر نظر اُتاری ہوگی

اُن کے کاندھوں پہ جو حسنین ؑ چہکتے ہوں گے


اُ ن کے آنے میں کبھی دیر جو ہوتی ہوگی

اُن کے معمول کے رستے تو تڑپتے ہوں گے

شاعر کا نام :- نامعلوم

دیگر کلام

مدینہ بس تمہیں اک آستاں معلوم ہوتا ہے

مِرے سرکار کی مدحت مِرے سرکار کی باتیں

رب دا دوارا اے دوارا آپ دا

کعبے میں جو سُنی ہے اذاں پھر سنائی دے

یہ ان کا کرم ان کی عنائیت ہے عطا ہے

یہ مانا کہ سب کچھ خُدا سے ملا ہے

جا زندگی مدینہ سے جھونکے ہوا کے لا

حِرا کی اوٹ میں کونین کے در کھولنے والا

کہیں جس کو دوائے دردِ ہجراں یا رسُول اللہ ؐ

نظر سے جب نہاں ہوتا ہے روضہ