نسبت کا یہ کمال ہے خیر البشر کے ساتھ

نسبت کا یہ کمال ہے خیر البشر کے ساتھ

ذرے نظر ملاتے ہیں شمس و قمر کے ساتھ


مفلس ہوں منتظر بھی ہوں آقائے نامدار

زادِ سفر بھی چاہیے اذنِ سفر کے ساتھ


طوفانِ کفر بھی نہ بجھا پائے گا اسے

نسبت ہے جس دیے کو شہِ بحر و بر کے ساتھ


ہیں پوری زندگانی کے حاصل وہ آٹھ دن

گزرے ہیں جو مدینے کے دیوار و در کے ساتھ


محشر میں بھی حضور کے ہم گیت گائیں گے

دنیا میں جی رہے ہیں اسی اک ہنر کے ساتھ


منہ تاکتا ہی رہ گیا گستاخِ مصطفےٰ

جنت میں اہلِ عشق گئے کروفر کے ساتھ


جنت میں کیوں نہ جائے گا یہ احقرالعباد

نسبت ہے جو شفیقؔ کو خیر البشر کے ساتھ

شاعر کا نام :- شفیق ؔ رائے پوری

کتاب کا نام :- متاعِ نعت

دیگر کلام

دَم بہ دَم بر ملا چاہتا ہُوں

انہی میں ہم بھی ہیں جو لوگ میہمان ہوئے

یانبیؐ صلِ علیٰ صلِ علیٰ کہتے رہو

جمالِ گنبد ِ خضریٰ عجیب ہوتا ہے

طیورِ فکر جو ان کے خیال تک پہنچے

دل میں پیدا کیجیے ڈر کاتبِ تقدیر کا

پھر اُٹھا وَلولۂ یادِ مُغِیلانِ عرب

میں راہ اوہدے وچ رُل دا ہاں محبوب پیارا نہیں آیا

کریم اپنے کرم کا صدقہ ضرور دیں گے ضرور دیں گے

ہے یاد تری اپنا ہنر عالم