پائی گئی ہے دوش پہ جن کے ، رِدائے خیر

پائی گئی ہے دوش پہ جن کے ، رِدائے خیر

خُلقِ عظیم وقف ہے اُن کا برائے خیر


اُن کے نَفَس نَفَس کے ہے جُنبش ، ہَوائے خیر

اُن کے عمل سے ہوگئی محکم، بِنائے خیر


خیرالبشرؐ کے دَم سے مقّدر بدل گئے

جو خیر کے خلاف تھے، وہ ہیں گدائے خیر


ہے مصطفیٰؐ کا نُور ، سُکوں ریز و دیں پناہ

ہاں، کفرِ شر پسند، اب اپنی منائے خیر


ہم اُس نبیؐ کے خیر سے ادنیٰ غلام ہیں

جو ابتدائے خیر ہے، جو انتہائے خیر


رحمت کے بادلوں کو جِلو میں لیے ہُوئے

چھانے لگی مدینے سے چل کر ہوائے خیر


ہر دم دُرود بھیج! رسولِؐ انام پر

اُن کی گلی میں جا! کہ مقدر میں آئے خیر


خیر البشرؐ نے شر کو مٹایا کچھ اِس طرح

ہر گوشۂ زمیں پر رہے جم کے پائے خیر


رحمت ہے خاص و عام پہ اُس بارگاہ میں

پائیں گے ہر قدم پہ سب اپنے پرائے ، خیر


ہر سُو جو حادثوں کے شرارے نظر پڑے

سب کہہ رہے ہیں اب کہ مدینہ ہے جائے خیر


محشر میں سب تھے اُن کی شفاعت کے منتظر

وہ آگئے حضورؐ، وہ اُبھرا لِوائے خیر


آفاق میں نہ کس لیے گونجے مِری صدا

مَیں بھی تو ہُوں نصیرؔ! شریکِ دُعائے خیر

شاعر کا نام :- سید نصیرالدیں نصیر

کتاب کا نام :- دیں ہمہ اوست

دیگر کلام

جسے عشقِ محمد میں تڑپتا دل نہیں ملتا

ہر کرم سے جدا ہے ان کا کرم

حسین و جمیل و ملیحان عالم

قبلہ و کعبہء ایمان رسول عربی

میسر جن کو دید گنبدِ خضریٰ نہیں ہوتی

نظر جو آئے گا سبز گنبد عجب نگاہوں کا حال ہوگا

میں اُن کا ہُوں گدا الحمد للہ

کرو رحمتاں ہُن عطا یا نبی

شہر ِ نبی کی کرلی زیارت الحمد اللہ الحمد اللہ

ملا ہے عشق محمدؐ سے یہ وقار مجھے