قریۂ خوشبو مری سانسوں کو مہکانے لگا

قریۂ خوشبو مری سانسوں کو مہکانے لگا

دھڑکنوں میں بھی درودی کیف سا چھانے لگا


ہیں نخیلِ نُور یا قدسی قطار اندر قطار

جگمگاتا سا حسیں منظر نظر آنے لگا


سبز گنبد سامنے ہے اور آنکھیں اشکبار

پھر مقدّر دید کی امّید بر لانے لگا


کہکشاں شمس وقمر راہوں میں ایسے بچھ گئے

آسماں جیسے زمیں کو چومنے آنے لگا


آرزوئیں پا برہنہ خواہشیں بھی دم بخود

آنکھ پتھرائی ہوئی اور دل بھی شرمانے لگا


کیوں کسی کو مانگنے کی اب یہاں حاجت رہے

بے طلب ہی ہر گدا خیرات جب پانے لگا


روح کی تغسیل جب اشکِ ندامت سے ہوئی

دل ہوا مُحرِم طوافِ شوق کو جانے لگا


لوٹ بھی جاؤں میں شہرِ نور سے نوری اگر

دل بہانہ جُو ہے میرا ’’کیوں بھلا‘‘ جانے لگا

شاعر کا نام :- محمد ظفراقبال نوری

کتاب کا نام :- مصحفِ ثنا

دیگر کلام

کونین کے گوشے گوشے پر

وہ ایک نام جو آب حیات ہے لوگو

یہ خوشبو مجھے کچھ مانوس سی محسوس ہوتی ہے

دفن جو صدیوں تلے ہے وہ خزانہ دے دے

صبا بہ سوئے مدینہ رُوکن ازین دُعاگو سلام بر خوان

تاج انجم نکہت گل آپؐ ہیں

عرضِ موسیٰ کو صدائے لن ترانی مل گئی

رحمت کی برستی بارش میں انسان پیاسا رہ جاتا

ہونٹ جب اسمِ محمد کے گہر چومتے ہیں

سارے پیمبر وں کی امامت کے واسطے