عرضِ موسیٰ کو صدائے لن ترانی مل گئی

عرضِ موسیٰ کو صدائے لن ترانی مل گئی

میرے آقا کو فلک پر میہمانی مل گئی


اے نسیمِ صبح تجھ کو گل فشانی مل گئی

گلشنِ طیبہ کی جب سے باغبانی مل گئی


بندۂِ عشقِ نبی ہیں اور کچھ حاجت نہیں

ہم ثناخوانوں کو بزمِ نعت خوانی مل گئی


ہم سےمدحت کےچمن میں ایسےغنچے کھِل اُٹھے

جن سے مداحِ نبی کو رُت سہانی مل گئی


روضۂِ سرکار پر قسمت سے موت آئے اگر

پھر سمجھ لو تم، حیاتِ جاودانی مل گئی


ہم نےجو شے بھی طلب کی روضۂِ سرکار پر

فضلِ رب اور مصطفےٰ کی مہربانی، مل گئی


بےخودی میں جلوۂِ جاناں کےحاصل تھے مزے

معرفت کی جب شرابِ ارغوانی مل گئی


ہو گئے کافور رنج و غم درِ سرکار پر

اضطرابِ دل ہوا گُم شادمانی مل گئی


منجمد سا کردیا تھا موسمِ حالات نے

اُن کی مدحت سے طبیعت کو روانی مل گئی


مصطفےٰ کی دین ہے یہ اے شفیقِِؔ بے نوا

نعت گوئی میں تجھے جو خوش بیانی مل گئی

شاعر کا نام :- شفیق ؔ رائے پوری

کتاب کا نام :- قصیدہ نور کا

دیگر کلام

زندگی کے راستوں سے

تری عظمت کے سُورج کو زوال آیا نہیں اب تک

اللہ کے کرم سے نبیؐ کی عطا کا فیض

میری سوچوں کی منزل تِری نعت ہے

مری عزت ترے نال دے سہارے یا رسول اللہﷺ

جس کو بھی ہو نصیب محبت حضورؐ کی

تیرا جمالِ دل فزا زینتِ بزمِ لامکاں

خیال و خواب میں ایسے سمائی رفعتِ نعت

اوجِ فلک پہ دیکھیے شانِ عُلٰی کے رنگ

سر بلندی کی روایت سرکٹا نے سے چلی