قربان میں ان کی بخشش کے مقصد بھی زباں پر آیا نہیں

قربان میں ان کی بخشش کے مقصد بھی زباں پر آیا نہیں

بِن مانگے دیا اور اتنا دیا دامن میں ہمارے سمایا نہیں


ایمان مِلا ان کے صدقے قرآن مِلا ان کے صَدقے !

رحمان مِلا ان کے صدقے وہ کیا ہے جو ہم نے پایا نہیں


ان کا تو شعار کریمی ہے مائل بہ کرم ہی رہتے ہیں

جب یاد کیا اے صل علیٰ وہ آہی گئے تڑپایا نہیں


جو دشمن جاں تھے ان کو بھی دی تم نے اماں اپنوں کیطرح !

یہ عفو و کرم اللہ اللہ یہ خُلق کِسی نے پایا نہیں


وہ رحمت کیسی رحمت ہے مفہوم سمجھ لو رحمت کا

اس کو بھی گلے سے لگایا ہے جِسے اپنا کسی نے بنایا نہیں


مونس ہیں وہی معذوروں کے غمخوار ہیں سب مجبوروں کے

سرکار مدینہ نے تنہا کِس کِس کا بوجھ اُٹھایا نہیں


آواز کرم دیتا ہی رہا تھک ہار گئے لینے والے !

منگتوں کی ہمیشہ لاج رکھی مَحروم کبھی لَوٹا یا نہیں


رحمت کا بھرم بھی تم سے ہے شفقت کا بھرم بھی تم سے ہے

ٹھکرائے ہوئے انسان کو بھی تم نے تو کبھی ٹھکرایا نہیں


خورشید قیامت کی تابش مانا کہ قیامت ہی ہوگی

ہم ان کے ہیں گھبرائیں کیوں کیا ہم پہ نبی ؐ کا سایا نہیں


اُس محسن اعظم کے یوں تو خالدؔ پہ ہزاروں اِحساں ہیں !

قربان مگر اس اِحساں کے اِحساں بھی کیا تو جتایا نہیں

شاعر کا نام :- خالد محمود خالد

کتاب کا نام :- قدم قدم سجدے

دیگر کلام

راہِ عرفاں سے جو ہم نادیدہ رو محرم نہیں

نورِ خدائے پاک کی تنویر یا حضورؐ

مسرت، شادمانی، اور شہرت بھی میسر ہے

کمی جو آنے نہ دے محبت میں

عطا کر دو مدینے کی اجازت یارسولَ اللہ

سرِ بزم ہر دوسرا آتے آتے

سرور عالم شاہ انام

جیہڑے کر دے حضور دا میلاد رہن گے

جبیں کو شاہ کے در کا نیاز مند کیا

بہت دیر کی دِل نے وا ہوتے ہوتے