رفعتوں کی انتہا تک جا کے واپس آگیا

رفعتوں کی انتہا تک جا کے واپس آگیا

خود کو چادر نُور کی پہنا کے واپس آگیا


رُک گیا تھا جس جگہ جبریلؑ اُس سے بھی پرے

پرچم انسانیت لہرا کے واپس آگیا


اپنے قدموں کی بہت ہی خوبصورت کہکشاں

راستوں کے درمیاں پھیلا کے واپس آگیا


اپنے اِک اِک امتی کا نام اک ہی رات میں

مغفرت کی لوح پر لکھوا کے واپس آگیا


سب جہانوں کے خدا سے محفل انوار میں

ہر طرح کی گفتگو فرما کے واپس آگیا

شاعر کا نام :- انجم نیازی

کتاب کا نام :- حرا کی خوشبُو

دیگر کلام

جو آنکھوں میں سمو لاتے ہیں جلوے آپْ کے در کے

کیا ہم کو شکایت ہو زمانے کے ستم سے

پادے آمنہ توں لعل میری جھولی حلیمہ ایہو خیر منگدی

جو کردار و عمل سے عاشقِ خیر البشر ہوں گے

جانِ جہاں کے دم سے ہی دم ہے رگِ حیات میں

جب مدینے کی طرف کوئی نکل پڑتا ہے

اے صاحبِ الطاف و کرم ابرِ خطا پوش

اُن کے در کے فیض سے سرشار ہونا تھا، ہوئے

اعزاز ہے اس در کی گدائی تو عجب کیا

سُمِرَن کی بِدھی نہ جانوں نہ جانوں مہاراج