رونق پہ جس کی مصر کا بازار بھی فدا
مجھ کو نبی کے شہر کی ہے وہ گلی پسند
نبی پہ پڑھتے رہیں ہم جو بار بار درود
نہ ہونے دے گا سرِ حشر شرمسار درود
قبول کیجیے نبیوں کے تاجدار درود
درود آپ پہ سرکار بے شمار درود
حضور آپ کے سر رفعتوں کا سہرا ہے
حضور آپ کی رفعت پہ بے شمار درود
سنوارتا ہی نہیں ہے یہ صرف دنیا کو
بنائے جاتا ہے عقبیٰ بھی خوشگوار درود
ضیا سے جس کی چمک اُٹھا عالمِ امکاں
اُس آفتابِ رسالت پہ نور بار درود
ٹھہرنا سامنے مشکل کا غیر ممکن ہے
میں دیکھ لوں جو اسے پڑھ کے ایک بار درود
خزاں کی رُت کبھی بھولے سے بھی نہیں آتی
مِرے چمن میں تِرے دم سے ہے بہار درود
اگر وہ چاہے تو جنت کی سیر کروادے
شفیقؔ رکھتا ہے اتنا بھی اختیار درود
شاعر کا نام :- شفیق ؔ رائے پوری
کتاب کا نام :- قصیدہ نور کا