رُلا دیتی ہے پاکیزہ مدینے کی ہوا مجھ کو
بہت ہی یاد آتے ہیں مرے خیر الوریٰؐ مجھ کو
مَیں اس کے ایک اک پتھر سے اپنے دل کو بہلاؤں
بُلا لے کاش اپنے پاس ہی غارِ حرا مجھ کو
ادھر آؤ ادھر بیٹھو مجھے دیکھو مجھے چومو
مدینے کی مقدس خاک دیتی ہے صدا مجھ کو
کبھی نوکر بنا کر ہی بٹھالیں اپنے قدموں میں
رسولِ دوجہاں میرے امام الانبیاء مجھ کو
وہ خالی تو نہ چھوڑیں گے وہ خالی تو نہ موڑیں گے
مگر دستِ کرم سے اُنؐ کے آتی ہے حیا مجھ کو
عجب اس کی سخاوت ہے عجب اس کی عنایت ہے
مرے ہونٹوں کی جنبش سے بھی پہلے دے دیا مجھ کو
جہاں پینے سے پہلے ہی مَیں اپنے ہوش کھو بیٹھوں
دکھا دے ایسا مے خانہ کبھی میرے پیا مجھ کو
نشہ ایسا پلا اترے نہ جو روزِ قیامت تک
دوعالم سے ہی بے گانہ تُو کردے ساقیا مجھ کو
ترے رخسار کے بوسے لیے ان کی شعاعوں نے
لگی ہے اس لیے اچھی ستاروں کی ضیا مجھ کو
دو عالم کے خزانوں سے کہیں بڑھ کر ہے وہ انجؔم
شہنشاہِ عرب نے ہی کیا ہے جو عطا مجھ کو
شاعر کا نام :- انجم نیازی
کتاب کا نام :- حرا کی خوشبُو