شان خدائے پاک کے مظہر حضور ہیں

شان خدائے پاک کے مظہر حضور ہیں

اس کائنات حسن کے زیور حضور ہیں


دل دشمنوں کے جیت لئے ان کی ذات نے

خلق خدا میں خلق کے پیکر حضور ہیں


اللہ نے ہے آپ کو کوثر عطا کیا

قرآن میں ہے صاحب کوثر حضور ہیں


رکھی گئی ہے عشق پہ بنیاد کائنات

اور بالیقین عشق کا محور حضور ہیں


دنیا کا غم ، لحد کا ہو ڈر' آخرت کا خوف

ہر مرحلے میں حامی و یاور حضور ہیں


ہوتے رہیں گے لوگ سدا جس سے فیضیاب

رحمت کا ایک ایسا سمندر حضور ہیں


اپنے نصیب وار دوں اس خوش نصیب پر

جس قلب خوش نصیب کے اندر حضور میں


غیروں سے مانگتا نہیں میں بھیک اس لئے

میرا نصیب میرا مقدر حضور ہیں


محشر کا امتحان بڑا ہی کٹھن سہی

کچھ غم نہیں کہ شافع محشر حضور ہیں


بخشش کے واسطے یہ حوالہ ہے معتبر

ہم ہیں گناہگار تو سرور حضور ہیں


مالک کہوں نیازی کہ مولا کہوں انہیں

دل نے کہا کہ اس سے بھی بڑھ کر حضور ہیں

شاعر کا نام :- عبدالستار نیازی

کتاب کا نام :- کلیات نیازی

دیگر کلام

فصل خزاں میں احمد مختار سے بہار

مرحبا سرورِ کونین مدینے والے

اُنکا منگتا ہوں جو منگتا نہیں ہونے دیتے

لج پال جے راضی ہو جاوے دنیا نوں مناون دی لوڑ نئیں

میں مدینے کا گدا میرا لقب کاسہ ہے

مسلماں اُن کے گھر سے جو وفا کرتا نظر آیا

رب آپ بنایا اے دلدار بڑا سوہنا

مری حیات محمدؐ کے نام لکھ دینا

عالم افروزہیں کس درجہ حرا کے جلوے

اس پہ ایمان بھی ایقان بھی ہم رکھتے ہیں